تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



يہ بات بھى ہميں معلوم ہے كہ جناب سليمان(ع) كو ہدہد نے جو ناخوشگوار خبر سنائي تھى وہ يہ كہ ملك سباء كے لوگ سورج پرست ہيں اور غيب و حضور كے جاننے والے سے روگردانى كئے ہوئے ہيں اور مخلوق كے آگے جھكے ہوئے ہيں_

حضرت سليمان(ع) كو اسى بات سے سخت دكھ پہنچا تھا اور ہم جانتے ہيں كہ بت پرستى ايك ايسى بات ہے جسكے سامنے كوئي بھى خدائي دين خاموش تماشائي نہيں بن سكتا اور نہ ہى بت پرستوں كو ايك مذہبى اقليت مان سكتا ہے بلكہ بوقت ضرورت زبردستى بھى بت كدوں كو مسمار اور شرك و بت پرستى كو نيست و نابود كرسكتا ہے_

مندرجہ بالا توضيحات سے بخوبى معلوم ہوتا ہے سليمان(ع) كى يہ دھمكى ''لا اكراہ فى الدين''كے بنيادى اصول سے بھى متصادم نہيں ہے كيونكہ بت پرستى كوئي دين نہيں بلكہ ايك خرافات اور راہ حق سے انحراف ہے_

پلك جھپكتے ہى تخت موجود

آخر كار ملكہ كے كارندے اپنے تحفے تحائف اور سازو سامان اكٹھا كر كے اپنے ملك واپس چلے گئے او رسارا ماجرا ملكہ اور اس كے مصاحبين سے جاكر بيان كيا،اسى طرح حضرت سليمان(ع) كے ملك كى معجزانہ عظمت بھى بيان كى جن ميں سے ہر ايك بات اس امر كى دليل تھى كہ وہ كوئي عام آدمى نہيں ہيں اور نہ ہى عام دنياوى بادشاہ ہيں بلكہ خدا كے سچے پيغمبر ہيں اور ان كى حكومت ايك خدائي حكومت ہے_

يہاں پر ان كے لئے يہ بات واضح ہوگئي كہ وہ نہ صرف جناب سليمان(ع) كے ساتھ فوجى مقابلے كى طاقت نہيں ركھتے بلكہ اگر بالفرض مقابلہ كريں بھى تو قوى احتمال يہى ہے كہ ان كا خدا كے ايك زبردست طاقتور نبى سے مقابلہ ہوگا_

لہذا ملكہ سبا نے اپنى قوم كے بہت سے سرداروں كے ساتھ مشورے كے بعد فيصلہ كيا كہ سليمان(ع) كے پاس ذاتى طور پر جاكر اس اہم مسئلے كے بارے ميں تحقيقات كريں تاكہ پتہ چل سكے كہ سليمان(ع) كا كيا

 

493

مسلك ہے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next