تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



489

در حقيقت ملكہ سباء خود بھى ايك''بادشاہ''تھى لہذا وہ بادشاہوں سے اچھى طرح واقف تھى كہ بادشاہوں كى جنگى حكمت عملى دو حصوں پر مشتمل ہوتى ہے ايك تباہى اور بربادى اور دوسرے باعزت افراد كو ذليل كرنا كيونكہ انھيں تو صرف اپنے ہى مفادات عزيز ہوتے ہيں_قوم و ملت كے مفادات اور ان كى سربلندى سے انھيں كوئي سروكار نہيں ہوتا لہذا عمومى طور پر يہ دونوں ايك دوسرے كى ضد ہوتے ہيں_

پھر ملكہ نے كہا:ہميں سب سے پہلے سليمان(ع) اور اس كے ساتھيوں كو آزمانا چاہيئےور ديكھنا چاہيئےہ وہ واقعاً ہيں كيسے لوگ؟آيا سليمان(ع) بادشاہ ہے يا پيغمبر ہے؟

تباہ كار ہے يا مصلح،اقوام و ملل كو ذليل كرتا ہے يا عزت بخشتا ہے؟تو اس كام كے لئے ہميں تحفے تحائف سے استفادہ كرنا چاہيئےہذا'' ميں ان كى طرف كچھ معقول تحفے بھيجتى ہوں پھر ديكھوں گى كہ ميرے قاصد ان كى طرف سے كيا رد عمل لاتے ہيں''_(1)

بادشاہوں كو تحفے تحائف سے بڑى محبت ہوتى ہے اور يہ تحفے اور ہديے ہى ان كى بہت بڑى كمزورى ہوتے ہيں_

انھيں تحفے دے كر جھكايا جاسكتا ہے ہم ديكھيں گے اگر سليمان(ع) نے ان تحائف كو قبول كرليا تو معلوم ہوجائے گا كہ وہ بادشاہ ہے اور ہم بھى ڈٹ كر اس كا مقابلہ كريں گے اور اپنى پورى طاقت استعمال كريں گے كيونكہ ہم بہر حال طاقتور ہيں اور اگر اس نے ان تحائف سے بے رخى كى اور اپنى باتوں پر ڈٹا رہا تو ہم سمجھ گے كہ وہ خدا كا نبى ہے تو ايسى صورت ميں ہميں بھى عقل مندى سے كام لينا ہوگا_

ملكہ سباء نے جناب سليمان(ع) كے لئے كيا تحائف بھيجے؟ اس بارے ميں قرآن نے تو كچھ نہيں بتايا_صرف كلمہ''ہديہ''نكرہ كى صورت ميں بيان كركے اس كى عظمت كو ضرور واضح كرديا ہے البتہ مفسرين نے اس بارے ميں بہت كچھ كہا ہے جن ميں سے بعض باتيں مبالغہ آرائي اور افسانوى رنگ سے خالى نہيں ہيں_


(1)سورہ نمل آيت 35

 

490



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next