تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



(2)ملكہ نے يہ كيوں كہا كہ يہ بہت ہى باعظمت خط ہے يا تو اس لئے كہ اس خط كے مطالب بہت ہى گہرے تھے يا پھر اس لئے كہ اس كا آغاز خدا كے نام سے ہوا تھا او راختتام پر جناب سليمان(ع) كے صحيح دستخط تھے اور مہر لگى تھي_ يا اس كا لكھنے والا باعظمت انسان تھا_مفسرين نے يہ مختلف احتمالات ذكر كئے ہيں ممكن ہے كہ يہ سب احتمالات جامع مفہوم ميں جمع ہوں كيونكہ يہ ايك دوسرے كے منافى نہيں ہيں_

يہ ٹھيك ہے كہ وہ لوگ سورج پرست تھے ليكن ہم جانتے ہيں كہ بہت سے بت پرست خدا پر بھى ايمان ركھتے تھے اور اسے ''رب الارباب'' كا نام ديتے تھے اور اس كا احترام كرتے تھے اور تعظيم بجالاتے تھے_

(3)سورہ نمل آيت30و31

(4)سورہ نمل آيت 31و 32

(5) بعيد معلوم ہوتا ہے كہ جناب سليمان(ع) نے اسى عبارت اور انہى عربى الفاظ ميں خط لكھا ہو بنابريں ممكن ہے مندرجہ بالا جملے يا تو صرف معنى كو بيان كررہے ہيں يا پھر سليمان(ع) كے خط كا خلاصہ ہوں جسے ملكہ سباء نے ان افراد كے سامنے بيان كيا_

 

488

حضرت سليمان(ع) كے خط كا تذكرہ كرنے كے بعد اہل دربار كى طرف رخ كركے ملكہ نے يوں كہا''اے سردارواس اہم معاملے ميں تم اپنى رائے كا اظہار كرو،كيونكہ ميں كوئي بھى اہم كام تمہارى شركت اور تمہارى رائے كے بغير انجام نہيں ديتى ہوں''_(1)

اس رائے طلبى سے وہ ان كے درميان اپنى حيثيت ثابت كرنا چاہتى تھى اور ان كى نظر اور توجہ اپنى طرف مبذول كرنا چاہتى تھي_تا كہ اس طرح سے وہ ان كى رائے اور اپنے فيصلے كو ہم آہنگ كرسكے_

اشراف قوم نے جواب ميں كہا :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next