تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



كسى بھى صورت ميں يہ خبر حضرت سليمان(ع) تك بھى پہنچ گئي لہذا انھوں نے فيصلہ كيا كہ اب جبكہ ملكہ اور اس كے ساتھى راستے ميں ہيں انھيں اپنى طاقت كا مظاہرہ كرنا چاہئے، تاكہ انھيں پہلے سے زيادہ ان كے اعجاز كى حقيقت كاعلم ہوجائے اور وہ ان كى دعوت قبول كرليں_

لہذا حضرت سليمان(ع) نے اپنے درباريوں سے مخاطب ہوكر كہا''اے بزرگوتم ميں سے كون شخص اس بات كى قدرت ركھتا ہے كہ اس كا تخت ميرے پاس لے آئے قبل اس كے كہ وہ خود ميرے پاس آئيں اور سر تسليم خم كريں_''(1)

اس موقع پر دو قسم كے افراد نے كہاكہ ہم يہ كام كرنے كے لئے تيار ہيں_جن ميں سے ايك عجيب اور دوسرا عجيب تر تھا،سب سے پہلے جنوں ميں سے ايك عفريت نے ان كى طرف منہ كركے كہا:''ميں اس كا تخت آپ(ع) كى مجلس سے اٹھنے سے پہلے پہلے آپ(ع) كے پاس لادوں گا_''(2)(3)

دوسرا ايك صالح اورمتقى انسان تھا اور''كتاب خدا''سے بھى اسے اچھى خاصى واقفيت تھي_جيسا كہ اس شخص كے بارے ميں خود قرآن كہتا ہے: ''جس كے پاس كتاب كا كچھ علم تھا اس نے كہا ميں آپ(ع) كے پلك جھپكنے سے بھى پہلے اس تخت كو لے آئوں گا''_(4)


(1)سورہ نمل آيت 38

(2)سورہ نمل آيت 39

(3)''عفريت ''كامعنى ہے مغرور،سركش اور خبيث _اور''ميں ان كى نسبت طاقتور اور امين ہوں'' جملے كى كئي بار تاكيد كى گئي ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس عفريت ميں كئي لخاظ سے خيانت كا انديشہ تھا لہذا اسے اپنا دفاع كرنا پڑا اور امانت و وفادارى كا يقين دلانا پڑا_

صورت حال خواہ كچھ ہو جناب سليمان(ع) كى زندگى عجائبات اور معجزات سے بھرى پڑى ہے اور كوئي تعجب كى بات بھى نہيں ہے كہ ايك عفريت اس قسم كا كارنامہ ايك يا چند گھنٹوں ميں انجام دے يعنى جتنى دير سليمان(ع) لوگوں ميں فيصلے كے لئے ياامور مملكت ميںغور و فكر كے لئے يا عوام كونصيحت كے لئے بيٹھے ہيں اتنى دير ميں وہ بھى ملكہ سبا كا تخت لاكر حاضر كرديتا_

(4)سورہ نمل آيت40

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next