تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



جبكہ معجزات كا دارومدار خداوند عالم كى بے پاياں اور لايزال قدرت پر ہوتا ہے جو خود خدا كى دوسرى صفات كى مانند غير محدود ہوتى ہے_

لہذا ہم ديكھتے ہيں كہ عفريت جن اپنى توانائي كو ملكہ سبا كے تخت كو لانے كے لئے جناب سليمان عليہ السلام كى مجلس برخاست كرنے ميں محدود كرتا ہے جبكہ جناب آصف بن برخيا نے اپنى توانائي كو كسى حد ميں محدود نہيں كيا اگر وہ پلك جھپكنے كى بات بھى كرتے ہيں تو در حقيقت ايك كم از كم مدت كى طرف اشارہ ہے جس سے كم مدت اور كوئي ہو نہيں سكتي_

اور مسلم ہے كہ جناب سليمان عليہ السلام بھى اس قسم كے كاموں ميں صالح شخص كى حمايت كريں گے كيونكہ اس طرح سے اس كا تعارف ہوگااور لوگ اس كى طرف متوجہ ہوں گے نہ كہ ايك عفريت كى كہ جس كى وجہ سے كوتاہ نظر لوگ شك ميں پڑجائيں اور اسے اس كى پاكيزگى اور اچھائي كى دليل سمجھنے لگ جائيں_

(1)سورہ نمل آيت41

 

496

اگر چہ ملكہ كے تخت كا سبا سے شام ميں آجانا ہى اس بات كے لئے كافى تھا كہ وہ اسے آسانى كے ساتھ نہ پہچان سكے ليكن اس كے باوجود جناب سليمان(ع) سے حكم ديا كہ اس ميں كچھ تبديلياں بھى كردى جائيں_ممكن ہے كہ يہ تبديلياں بعض علامتوں اور جواہركو ادھر ادھر كركے كى گئي ہوں با بعض رنگوں كو تبديل كرديا گيا ہو_(1)

صورت حال خواہ كچھ بھى ہو ب ملكہ پہنچى تو كسى نے(تخت كى طرف اشارہ كركے)كہا:''كيا آپ كا تخت اسى طرح كا ہے''_(2)

ملكہ سبا نے نہايت ہى زيركا نہ انداز ميں ايك بہت ہى شستہ اور جچا تلا جواب ديتے ہوئے كہا:''يہ تو خودوہى تخت معلوم ہوتا ہے''_(3)

اگر وہ كہتى كہ اس جيسا ہے تو جواب صحيح نہ ہوتا او راگر كہتى كہ بالكل وہى ہے تو خلاف احتياط بات تھي_كيونكہ اس قدر لمبے فاصلوں سے اس كے تخت كا سرزمين سليمان عليہ السلام ميں آنا عام حالات ميں ممكن نہيں تھا_اس كى صرف ايك ہى صورت رہ جاتى ہے اور وہ ہے معجزہ_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next