تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



(2)سورہ انبياء آيت 78

 

481

باغ كا مالك حضرت داؤد(ع) كے پاس شكايت لے كر پہنچا_حضرت داؤد(ع) نے حكم ديا كہ اس اتنے بڑے نقصان كے بدلے ميں تمام بھيڑيں باغ كے مالك كو دے دى جائيں_

سليمان(ع) جو اس وقت بچے تھے باپ سے كہتے ہيں كہ،اے خدا كے عظيم پيغمبرآپ اس حكم كو بدل ديں اور منصفانہ فيصلہ كريںباپ نے كہاكہ وہ كيسے؟آپ(ع) جواب ميں كہتے ہيں كہ:بھيڑيں تو باغ كے مالك كے سپرد كى جائے تا كہ وہ ان كے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور باغ كو بھيڑوں كے مالك كے حوالے كيا جائے تا كہ وہ اس كى اصلاح اور درستى كى كوشش كرے_جس وقت باغ پہلى حالت ميں لوٹ آئے تو وہ اس كے مالك كے سپرد كرديا جائے اور بھيڑيں بھى اپنے مالك كے پاس لوٹ جائيںگي(اور خدا نے سليمان(ع) كے فيصلہ كى تائيد كي)_

يہاں پر ايك اہم سوال باقى ہے:

ان دونوں فيصلوں كى بنياد او رمعياركيا تھا؟

اس سوال كے جواب ميں كہا جاسكتا ہے كہ معيار اور بنياد خسارے اور نقصان كى تلافى كرنا تھا_حضرت داؤد(ع) نے غور كيا اور ديكھا كہ انگوروں كے باغ ميں جو نقصان ہوا ہے،وہ بھيڑوں كى قيمت كے برابر ہے_ لہذا انہوں نے حكم ديا كہ اس نقصان كى تلافى كرنے كے لئے بھيڑيں باغ كے مالك كو دے دى جائيں كيونكہ قصور بھيڑوں كے مالك كا تھا_

(اس بات كى طرف توجہ رہے كہ بعض اسلامى روايات ميں يہ بيان ہوا ہے كہ رات كے وقت بھيڑوں والے كى ذمہ دارى ہے كہ وہ اپنے ريوڑ كو دوسروں كے كھيتوں ميں داخل ہونے سے روكے اور دن كے وقت حفاظت كى ذمہ دارى كھيتوں كے مالك كى ہے)_

اور حضرت سليمان(ع) كے حكم كا ضابطہ يہ تھا كہ انہوں نے ديكھا كہ باغ كے مالك كا نقصان بھيڑوں كے ايك سال كے منافع كے برابر ہے_ اس بناء پر فيصلہ تو دونوں نے حق و انصاف كے مطابق كيا ہے ليكن اس ميں فرق يہ ہے كہ حضرت سليمان(ع) كا فيصلہ زيادہ گہرائي پر مبنى تھا،كيونكہ اس كے مطابق خسارہ ايك مشت نہيں كيا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next