دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



ایک طبقہ مسیح کو محض ایک ایسے انسان کی حیثیت دیتا ھے جس کو خدا وند عالم کی بے پناہ لطف وعنایت حاصل تھی اور جس کو خدا وند عالم نے اپنی فرزندی کے لئے منتخب کر لیا ھے۔

بعض کے نزدیک مسیح کی حیثیت اس انسان کی سی ھے جو ذات اور حقیقت کے اعتبار سے تو خدا سے جدا ھے لیکن ارادہ ومشیت کے اعتبار سے ایک ھے۔

بعض کا خیال ھے: خدا جو کہ باپ ھے (اب) روح القدس کی صورت میں زمین پر اترا اور مریم میں بہ صورت انسانی مجسمھوا، اور عیسی عليه السلام '(ابن)پیداھوئے۔ لہذا خدا وند عالم تین اقنوم سے مرکب ھے جو مختلف صورتوں میں خد کو آشکار کرتا ھے۔

کچھ دوسرے حضرات نے جناب عیسی عليه السلام 'کو دوھری حقیقت و ماھیت کا حامل کیا ھے: ایک ماھیت خدائی اور دوسری ماھیت بشری۔ وہ مسیح کو ان دونوں سے مرکب مانتے ھیں (ماھیت مزدوج)

اس کے برخلاف ایک گروہ( MONOPAYSI TES) حضرت عیسی عليه السلام 'کے بارے میں وحدت ماھیت کا عقیدہ رکھتا ھے ان کا خیال ھے کہ مسیح ماھیت واحد کے باوجود تمام معنوں میں مکمل الھی' ماھیت نیز مکمل بشری ماھیت کے حامل ھیں چنانچہ فلسفہ کے مقام پر ۳۲۵ میں تقریبا تین سواسقف (مذھبی رہنما) مختلف کلیساوں نمائندوں کے عنوان سے جمعھوے اور اس کمیٹی نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظھار کیا: ھم خداے واحد قادر مطلق باپ، پر عقیدہ رکھتے ھین جو تمام مرئی وغیر مرئی چیزوں کا خالق ھے اور خدا وند واحد عیسی' مسیح، پسر خدا پر ایمان رکھتے ھیں جو باپ سے پیداھوئے یہ یکتا مولود، ذات پدر سے ھے خدا سے خدا، نور سے نور، ایک حقیقی خدا جو مولود ھے نہ کہ مخلوق، جس کی ذات باپ کے پاس ملحق ھے اور اسی کے ذریعہ تمام چیزوں کو لباس وجود حاصلھوا۔

بھر حال اس طرح کے تصورات مسیحیوں کے درمیان عظیم اختلاف کا باعثھوئے۔ جیسا کہ ھمیں معلوم ھے کہ نسطوریوس، قسطنطنیہ کا اسقف ان لوگوں میں سے ایک تھا جھنوں نے عیسی'کی خدائی سے انکار کیا ھے اور نتیجہ کے طور پر ارباب کیسا کے عتاب کا شکارھو کر مورد اخراج و تکفیر قرار پایا۔ اور پھر اس کے مانتے والوں کو ۴۵۷ میں شھزاد سا، سے در بدر کر دیا گیا اور وھاں کے بھت سے عیسائی باشندوں نے ایران کی طرف کوچ کیا اور اس طرح نسطوری مسیحیت نیز یونان و روم سے متعلق علوم و معارف کا ایک حصّہ یہ لوگ اپنے ساتھ ایران لائے۔

خدا وند عالم اور حضرت مسیح کے بارہ میں مسیحی طرز فکر کن مراحل سے گذری اس کا یہ ایک مختصر سا خاکہ اشارہ طور پر پیش کیا گیا ھے اور اسی سے انداز لگایا جاسکتا ھے کہ آخر قرآن کریم عقیدہ تثلیث، نیز خدا کے بارے میں بیٹے کا تصوّر یا اسی قسم کے دوسرے شرک آمیز تصوّرات کی کیوں اس شدومد کے ساتھ مخالفت کرتا ھے۔

بت پرستی:

 Ø¨Ú¾Øª سی گذشتہ اقوام میں مختلف صورتوں میں بت پرستی رائج رھی Ú¾Û’ اور اب بھی بھت سی ملتوں Ú©Û’ درمیان اس کا رواج پایا جاتا Ú¾Û’Û”

اسلام سے قبل عرب میں بھی بت پرستی رائج تھی۔ لوگ بتوں کو بعض اوقات مستقل حیثیت سے دنیوی امور میں موثر مانتے تھے اور کبھی اپنے اور خدا کے درمیان محض ایک واسطہ تصوّر کرتے تھے۔ اور ان پتھر، لکڑی یا کسی دھات سے تیار کرلیا کرتے تھے۔

خدا اسلام کی نظر مین:

توحید، اور یکتاپرستی تمام کی تمام اسلامی تعلیمات میں اس طرح رائج ھے اور تمام تر اسلامی آثارو کتب نیز عبادت ومراسم میں اس پر اتنی توجہ دی گئی ھے کہ بجا طور پر تنھا دین اسلام دین توحید کھے جانے کا مستحق ھے اگر چہ بعض دیگر ادیان بھی اپنے آغاز میں توحید سے مربوط تھے۔ ان لوگوں کے بر خلاف جو ھر چیز کو خدا مانے پر تیار نظر آتے ھیں یا خدا کے بارہ میں ثنویت (دوئی) یا تثلیث (تین خداوں کے وجود) کے قابلھو گئے ھیں یا اسی طرح وہ لوگ جو بتوں، مجسموں، تصویروں اور روحوں بلکہ بعض انسانوں یا عناصر و فطرت کی پرشتش و عبادت کرتے ھیں۔ اسلام کا واضح اعلان ھے کہ خدا واحد و یگانہ ھے۔ وہ ماں باپ اور بال بچّوں سے عاری ھے اس کو کسی شریک و مدد گار کی حاجت نھیں، حتی' کہ کسی ایسے واسطے یا شفارش کرنے والے کا وجود نھیں جو بطور مستقل خود ھی گناھوں کو بخش دے اور بھشت کی تجارت کرے یا حاجتیں پوری کرے۔ خدا کے علاوہ جو کچھ بھی اور کوئی ھے سب اسی کی مخلوق اور اسی کے بندے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next