دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



وہ سورے جو مکہ میں نازل ھوئے مکی، اور جو مدینہ میں نازل ھوئے مدنی کھے جاتے ھیں سوروں کے نام ان ھی الفاظ سے مختص کئے گئے ھیں جو اسی سورہ میں استعمال ھوئے ھیں۔

جمع Ùˆ تدوین اورحفاظت:  Ø¯ÛŒÚ¯Ø± آسمانی کتابوں Ú©Û’ مقابلہ میں قرآن مجید Ú©Û’ اھم ترین خصوصیات میں سے ایک اس کا ھر طرح Ú©ÛŒ تحریف اور دست برد سے محفوظ رھنا بھی Ú¾Û’Û” قرآنی آیات بلا کسی Ú©Ù… Ùˆ کاست اور ردوبدل Ú©Û’ بالکل ÙˆÚ¾ÛŒ ھیں جو خدا Ú©ÛŒ جانب سے نازل ھوئی ھیں۔ اور آج ھمارے ھاتھوں میں موجود ھیں۔ پیغمبر اکرم(ص) پر جب بھی کوئی آیت نازل ھوتی تھی Ù¾Ú¾Ù„Û’ تو آنحضرت (ص)لوگوں Ú©Û’ سامنے اس Ú©ÛŒ تلاوت فرماتے اور پھر معتمد کا تبین کا ایک گروہ، جن Ú©ÛŒ مجموعی تعداد بعض Ù†Û’ Û±Û¸ افراد تک بتائی Ú¾Û’ØŒ پوری ذمہ داری Ú©Û’ ساتھ یہ آیتیں لکھتا تھا۔ ان کا تبین میں معروف ترین افراد علی ابن ابی طالب، عبداللہ ابن مسعود، زید ابن ثابت، ابی بن کعب اور معاذین جبل ھیں۔

اس کے علاوہ خود مسلمان کو قرآن حفظ کرنے کا بڑا خیال رھتا تھا، جب کبھی کوئی آیت نازل ھوتی ھر طرف پھیل جاتی اور اس کی بار بار تلاوت کی جانے لگتی۔ کیونکہ ایک طرف سے انھیں ادبی شہ پاروں سے بے حد لگاو تھا۔ دوسری طرف سے وہ قرآن کی غیر معمولی اھمیت اور احترام کے بھی قائل تھے کیونکہ قرآنی احکام و معارف نے ان کی زندگی اور قسمت کو سنوارنے نیز ھر طرح کے ظلم و فساد اور جھل و خرافات کا قلع قمع کرکے معاشرے کو تحول و ترقی کی سمت لیے جانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا تھا چنانچہ مسلمان بڑی دل جمعی کے ساتھ قرآن حفظ کیا کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام کی وفات کے فورا بعد ھی حضرت علی ابن ابی طالب قرآن جمع کرنے میں مشغول ھو گئے یعنی قرآنی آیتوں اور سوروں کے وہ نوشتے جو کھال کے ٹکڑوں، کھجور کے پتّوں اور کپڑوں پر منتشرو پر اگندہ تھے حضرت علی علیہ اسلام نے جمع کیا اور تمام سوروں کو محضوص ترتیب کے ساتھ۔ گویا ترتیب نزول کے مطابق۔ ایک دوسرے کے بعد قرار دیا۔

تقریبا سال دو سال کے بعد جنگ یمامہ، میں حافظین قرآن کے بھت سے افراد کام آگئے مسلمانوں کو یہ فکر لاحق ھوئی کہ قبل اس کہ تمام حافظین قرآن ھمارے درمیان سے اٹھ جائیں قرآن کو ایک مجمعوعہ کی شکل دیدینا ضروری ھے۔ زیدبن ثابت جھنوں نے حضرت علی کے بعد سب سے زیادہ براہ راست قرآن سے استفادہ کرنے اور اس کو جمع کرنے میں پوری توجہ سے کام لیا تھا، اس کام پر مامور کئے گئے۔ انھوں نے کاتبین وحی کی تحریروں کو پیش نظر رکھتے ھوئے موجودہ نسخوں سے تبطیق اور مقابلہ کرنے کے بعد اصحاب پیغمبر(ص) کے حافظہ کے مطابق قرآن کو ایک کتاب (مصحف) کی صورت میں صاف کی ھوئی کھال پر لکھ ڈالا اور یہ مجموعہ پھلے ابو بکر پھر عمر اور ان کے بعد عمر کی بیٹی حفضہ، زوجئہ پیغمبر اسلام (ص)، کے پاس رھا۔

مسلمانوں کی پوری کوشش تھی کہ معمولی ترین فرق بھی قرآن میں پیدا نہ ھونے پائے حتی' کہ خلیفلہ وقت قرآن میں اگر ایک واو، کی بھی کمی کرتا تو مسلمانوں کی جانب سے شدید ترین اعتراض کا سامنا کرنا پڑتا۔

عثمان کے دور میں جبکہ اسلامی مملکت کا دائراہ بھت زیادہ وسیع ھو چکا تھا اطراف و جوائب سے خبر ملی کہ قرآن مختلف لب و لہحہ میں پڑھا جاتا ھے۔ اور یہ لہبوں کا اختلاف، خصوصا اس بات کے پیش نظر قرآن میں اعراب اور نقطے لگائے جانے والا رواج پیدا نھیں ھوا تھا ممکن تھا کہ قرآنی آیات و کلمات میں ردوبدل کا سبب بن جاتے، چنانچہ وہ قرآن جو حفصہ کے پاس تھامنگواکر زیدبن ثابت انصاری نیز کاتیبین وحی میں سے دیگر تین افراد کے سپرد کیا گیا تاکہ حافظین قرآن کے ایک گروہ کی نیگرانی میں اور ایک روایت کے مطابق حضرت علی ابن ابی طالب کے مشورے سے قرآن مجید کے ۴ یا ۷ نسخے تیار کئے جائیں اور یہ لوگ کوشش کریں جھاں کھی قرائت کے لب و لھجہ میں اختلاف نظر آئے۔ قریش، یعنی وہ اھل مکہ جن پر پھلی دفعہ قرآن نازل ھوا تھا، کے لھجہ کو ترجیح دیں۔ اور ان نسخوں کی تطبیق کے بعد قریب وجوار میں پھلے تمام اسلامی ممالک میں ارسال کریں اور لوگ ان کو تکثیر و استنساخ کا اصل ماخذ قرار دیں۔ اور اسی صورت میں قرآن آج تک باقی ھے۔ اور یہ ۸۰ کروڑ مسلمانوں کے لئے عظیم ترین افتخارات میں سے ھے کہ ان میں نازل ھونے والی آسمانی کتاب ۱۴ سو سال گزر جانے کے بعد بھی جبکہ اس کے ھزاروں مخطوطے اور کروڑوں مطبوعہ نسخے ساری دنیا میں پھیلے ھوئے ھیں اس میں کسی طرح کی تبدیلی پیدا نھیں ھو سکی ھے۔

قرآن کا اعجاز:

قرآن میں کئی مقامات پر پوری صراحت کے ساتھ لوگوں کو چیلخج کرتے ھوئے اس بات کی دعوت دی گئی ھے کہ اگر ان کو اس میں کوئی شک و شبہ ھو یا وہ اس کو خود پیغمبر اسلام (ص) کا ساختہ و پرداختہ تصوّر کرتے ھوں، تو بڑے اطمنان کے ساتھ ولو ایک سورہ کا ھی سھی جواب لئے آئیں لیکن آج تک کوئی اس کا جواب لا سکا ھے اور نہ ھی لا سکے گا۔ قرآن کا معجزہ ھونا صرف اس کے الفاظ یعنی اس کی سلیس اور فصیح عبارتوں تک محدود نھیں ھے بلکہ معنی کی گھرائی و گیرائی، قوانین و معارف اور حدودو احکام کی قاطیعت اور ان کی اھمیت واستحکام کے لحاظ سے بھی قرآن ایسا بے نظیر خزانہ ھے کہ علوم و افکار تمدن کے ارتقاء کے ساتھ اس کی حقیقت واھمیت اور زیادہ روشن و منور ھوتی جاتی ھے۔

اسی طرح ایک وسیع معاشرہ تشکیل دینے نیز ظلم و فساد کا خاتمہ کرکے عدل ومساوات کی فضا قائم کرنے کے زاویئہ نگاہ سے قرآن کی اھمیت خود غورو فکر کی طالب ھے۔

قرآن ھی وہ آسمانی کتاب ھے جو کبھی بھی تزلزل اور کاھلی کا شکار نھیں ھونے دیتی، جو ھمیشہ صداقت، خیرخواھی اور بلند اندیشی کی طرف رھنمائی کرتی رھتی ھے۔ یقینا ایک آفاقی اور جاودانی دین کی کتاب ایسی ھی ھونی چاھئیے۔ ھمیں جتنا بھی ممکن ھو سکے زیادہ سے زیادہ قرآنی معارف سے آشنائی حاصل کرنی چاھئیے اور اس کتاب کو انسانی سعادت وکمال کے لئے بھترین رھنما اور روشن و منور چراغ سمجھنا چاھئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next