دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



( ۳ ) ھر طرح کے ظلم و ستم، خودسری و مطلق العنانی، اختلاف و انتشار، فریب اور دھوکا دھڑی کے خلاف آواز بلند کی اور اس راہ میں قربانیاں پیش کرتے رھے۔

(۴) جن چیزوں کی دوسروں کو تعلیم دیتے خود بھی اس پر یقین و ایمان رکھتے اور سب سے پھلے لوگوں کو اپنے اخلاق و کردار کا گرویدہ بناتے۔

( ۵) ان کی باتیں فیصلہ کن،ھر ایک کی سمجھ میں آنے والی نیز کذب و ریا سے خالی ھوتی تھیں۔

(۶) لوگوں کے درمیان ان کی کامیابی اور اثرو رسوخ روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ ان کی تعلیم وتربیت اور افکار کے نقوش کا ایک بڑا حصّہ عرصئہ دراز تک دنیا میں باقی رھا ھے۔

( ۷ ) اپنے ماحول اور زمانے سےمتاثر نہ ھونا نیز اپنی تعلیمات کو دوسرں سے حاصل نہ کرنا ان کی خصوصیت رھی ھے اس کےبر خلاف وہ معاشرہ کے موجود فکری نظام اور ماحول کو تبدیل کرتے رھے ھیں

اگر کوئی دقت نظر کے ساتھ تاریخ اور تعلیمات انبیاء خصوصا اسلام کا تحقیقی مطالہ کرے تو یہ بات بخوبی روشن ھو جائے گی کہ:۔

(الف)دین اعلی' طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد یا معاشرہ پر حاکم جماعت کی ایجاد کردہ کوئی شے نھیں ھے کہ اس کے ذریعہ لوگوں پر ظلم و زیادتی روا رکھی جاسکے اور اس سے انسانوں کا استھصال کرنے کے سلسلہ میں مدد حاصل کی جائے۔ چنانچہ: ۔

ھم دیکھتے ھیں کہ خدا کے عظیم نمایندے مثال کے طور پر پیغمبر اسلام محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عیسی' و حضرت موسی' علیھمااسلام، محروم و مظلوم عوام کے درمیان سے ھی مبعوث ھوئے خود نھایت ھی سادہ زندگیاں گذارتے رھے اور محروم و بے سھارا قوام کی نجات کے لئے مفاد پر ست ظالم و جابر، ستم پیشہ افراد سے مقابلہ کرتے رھے۔

پیروان انبیاء اور ان Ú©Û’ مخالفین Ú©ÛŒ زندگیوں کا مطالہ کرنے سے بھی اسی حقیقت Ú©ÛŒ تائید ھوتی Ú¾Û’ اصولی طور پر انبیاء کا اصل مقصد سر Ú©Ø´ÛŒ کا مقابلہ کرنا رھا Ú¾Û’:  چنانچہ قرآن مجید میں خدا فرماتا Ú¾Û’:Û”

 (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ)[1]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next