دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



( وَالسَّمَاء رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ)

خدا نے آسمان کو بلندی عطا کی اور ھر شئی کے لئے ایک میزان و قانون قرار دیا تاکہ تم بھی اپنے میزان ودائرے سے تجاوز نہ کرو۔

(د) دین کو خوف وھراس کا نتیجہ قرار دینا بھی صحیح نھیں ھے ویسے آئنسٹائن کے قول کے مطابق ممکن ھے: خوف ابتدائی دور کے ایک انسان کے لئے مذھبی زمین ھموار کرنے کا ذریعہ بنا ھو لیکن ایک مذھبی جذبہ واحساس ابتدائے آفرینش سے ھی ھر ایک کے ذھن میں موجود رھا ھے[3]

ھ۔ (دین) معاشرہ کو کاھل، نکما،غیر متحرک اور مفلوج نھیں بناتا بلکہ اصولی طور پر یہ وہ آب حیات ھے جو قوموں میں آگاھی و بیداری اور تحرک پیدا کر دیتا ھے۔اگر چہ موجودہ دور میں صبر وقناعت، تسلیم ورضا اور تحمل وتوکل کا مفھوم ھی بالکل منفی انداز میں پیش کیا جانے لگا ھے۔ قرآن کا تو یہ اعلان ھے:۔

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ)[4]

اے ایمان والو! خدا اور اس کا رسول (جب بھی)تم کو کسی ایسی شيئ کے لئے آوازدے جو تمھاری حیات کا سر چشمہ ھے۔ توتم فوراًلبیک کھو۔

و۔ (دین)توھم وجمود طاری کر دینے کا باعث نھیں ھے کیونکہ اسلام سب کو غور وخوض اور آزاد فکری کی دعوت دیتا ھے۔اہل خرد و دانش کو دوسروں سے برتر و ممتاز سمجھتا ھے (چنانچہ ارشادھوتا ھے:ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔کیا عالم وجاھل ایک دوسرے کے برابر ھو سکتے ھیں، مگر اسلام اس بات پر زور دیتا ھے کہ لوگ عقل وفکر کا صحیح اورمفید استعمال کریں تاکہ گمراھی و تباھی نیز تعصب و خود سری میں گرفتار نہ ھوں۔ یہ اور بات ھے کہ کچھ خود غرض،مفاد پرست عناصر تاریخ میں ایسے بھی مل جائیں گے جنھوں نے دین سے نا ناجائز فائدہ اٹھاتے ھوئے اس کے ذریعہ لوگوں کو غافل اور نکمابنا کر ان کا استحصال کیا ھو،لیکن اس چیز کو دین کی اصل خاصیت میں شمار کرنا کسی بھی صورت میں درست نھیں ھے بلکہ یہ دین کا ایک غلط اور بے جا استعمال ھے۔

ز۔ مذھبی احساسات کے اسباب وعلل کو، کچلےھوئے جنسی جذبات میں تلاش کرنا درست نھیں ھے۔کیونکہ اگر چہ ماھرین نفسیات کے مطابق کچلی ھوئی خواھشات یا غیر محسوس نفسیاتی دباؤ ایک شخص کے کردار و رفتار پربھت گھرا اثر ڈالتا ھے پھر بھی محض جنسی خواھش کو انسان کے اعمال وعقائد کی علت تصور کرنا غلط ھے بلکہ آدمی کے اندر اوربھی خواہشات ورجحانات موجود ھیں۔

ح۔ اسی طرح اقتصادی عوامل (خصوصاً طبقاتی کشمکش )کو بھی وجود ادیان ومذاھب کا باعث قرار نھیں دیا جا سکتا۔ یعنی ھم یہ مان لیں کہ کوئی خیرخواہ، معاشرہ میں موجود مفلوک الحالی کے سبب دین ومذھب کی تبلیغ پر مجبورھو گیا تاکہ اس طرح دولت مندوں کی زیادتیوں کے خلاف غریبوں، محتاجوں اور بینواؤں کے حق میں اقدامات کرے اورمستقبل میں بعض لوگوں نے اس سے بر عکس استفادہ کیا ھو۔ ایسا ھر گز نھیں ھے۔

در اصل اس فکر کی بنیاد یہ ھے کہ بعض لوگوں کی نظرمیں تمام اجتماعی مسائل محض اقتصادی عوامل کی پیداوار ھیں جب کہ رفتہ رفتہ یہ ثابت ھو چکا ھے۔ کہ اجتماعی عوامل متعدد و پیچیدہ ھیں۔ معاشرے محض ایک محرک کے زیر اثر نھیں ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next