دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



زرتشتی معاشرہ بندی

ساسانی دور کو بنیاد بنا کر اگر زرتشتی معاشرہ کی طبقاتی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلومھوگا کہ اس وقت کے ایرانی معاشرہ میں تخصیص و امتیازات کا ایک نمایاں سلسلہ پایا جانا تھا۔ تمام افراد خونی اور خاندانی رشتوں کی بنیا پر مختلف طبقوں میں بٹےھوئے تھے اور ھر طبقے کو خصوصی امتیازات حاصل تھے۔ اس طبقہ بندی کی مختلف نوعیتں تھیں۔ زرتشتیوں کی مذھبی کتاب اوستا، کے مطابق لوگوں کو چار طبقوں میں منقسم کیا گیا تھا۔

(۱) سواران۔ یہ طبقہ موبدوں یعنی زرتشتیوں کے روحانی پیشواوں پر مشتمل تھا۔

(۲) ارتیشتاران۔ یہ فوجیوں اور سرداروں پر مشتمل تھا۔

(۳) دبیران۔ یہ لکھنے پڑھنے والے منشیوں اور ملازموں پر مشتمل تھا۔

(۴) واسترپوشان۔ یہ طبقہ عام لوگوں پر مشتمل تھا۔

بعض نے ان کی اس طور پر بھی تقسیم بندی کی ھے۔ (۱) شرفاو درباری (۲) فوج و سپاہ (۳) تاجرپیشہ ور اور کسان وغیرہ بھر صورت زرتشتی معاشرہ میں تقسیم بندی نا قابل انکار حقیقت ھے اور وہ بھی اس طور پر کہ ایک طبقہ سے تعلق رکھنے والا کسی بھی صورت کسی دوسرے طبقہ میں شامل نھیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کی آزادی، حقوق و مناصب اور سماجی حیثیت میں بڑا فرق تھا۔ مثال کے طور پر کسانوں کو بھاری سے بھاری ٹکس ادا کرنے میں چون وچرا کی اجازت نہ تھی اور جنگ کے دوران خود کو دشنموں کے مقابلہ میں قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کرنا پڑتا تھا۔ نعمت وعلم اور سماجی حقوق سے یہ لوگ یکسر محروم تھے۔ ان کے مقابلہ میں شرفا اور درباری، عیش و عشرت اور دولت و ثروت میں غرق تھے۔

خسرو پرویز کے دربار میں اور خزانوں سے مطلق، حتی' کہ وقت فرار، جو واقعات نقل کئے جاتے ھیں وہ اس دعوے کی شھادت کے لئے کافی ھیں۔ در اصل مزدکیوں کی شورش اسی طبقاتی اختلاف کے خلاف ایک قسم کی بغاوت کھی جاسکتی ھے۔

یھودیوں کی قومی عصبیت

جیسا کہ گذشتہ بحث میں اشارہ کیا جا چکا ھے یھوہ، کو یھودیوں کے بارہ ۱۲ قبائل کا قومی خدا بنا کر پیش کیا گیا ھے اور ان کی مذھبی کتب سے بخوبی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ھے کہ یھوہ، خود کو تمام روے زمین کا واحد خدا نھیں سمجھتا تھا کہ بنی اسرائل کو اس کے علاوہ کسی دوسرے خدا کی پرشش نھیں کرنی چاھئے۔ اس کے بعد بنی اسرائل نے یھوہ، کی بیعت کر لی اور اس کی نظر میں دنیا کے منتخب ترین افراد کی حیثیت اختیار کر گئے چنانچہ وہ بھی محض یھوہ، کو اپنے خدا کے طور پر قبول کر لیتے ھیں۔ اس طرح یھوہ، صرف اس قوم کا محافظ و نگراں قرار دیا گیا۔ اور یھی وہ بنیاد ھے جس کے زیر اثر یھودیوں کے درمیان طبقاتی تصوّر ایک مخصوص انداز کا حامل نظر آتا ھے یعنی یہ لوگ خود کو دوسری تمام اقوم و ملل کےمقابلہ میں ممتاز و برگزیدہ ترین قوم شمار کرتے ھیں (در اصل یھی قومی تفوق و بر تری کا عقیدہ بعد میں نازی ازم اور فاشیزم کے روپ میں ظاھرھوا ھے )

چنانچہ قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ھے کہ یھود خود کو تنھا محبوب الھی' تصور کرتےھوئے خدا کے فیوض والطاف کو اپنی قوم سے مخصوص خیال کرتے تھے دوسری طرف دوزخ کا عذاب دوسرں کا مقصد سمجھتے تھے۔ اس طرز فکر نے ان کو اس بات کی کھلی چھوٹ دے رکھی ھے کہ دوسری قوموں کے حقوق کھل کر پامال کرتے رھیں۔ حتی' کہ وہ دھوکہ دھڑی کے ذریعہ دوسروں کی دولتھڑپ کرنے میں کامیاب بھیھوگئے۔ بھر صورت وہ اپنی اسی سازش و حیلہ گری کی وجہ سے ھمیشہ یا تو خود دوسروں کے حملوں کا نشانہ بنتے رھے ھیں یا خود انھوں نے دوسروں پر حملہ ودست درازی سے کام لیا ھے۔

در اصل انھوں نے ھمیشہ خود کو دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ ایک بیگانہ و منفرد طبقہ کے طور پر محسوس کیا ھے اور کبھی دوسروں کو انسانی نظر سے قابل احترام سمجھنے کی کوشش نھیں کی ھے انھیں اپنی اس قومی عصبیت کی بنا پر پریشانی اور آوارگی کی زندگی برداشت کرنی پڑتی ھے چنانچہ موجودہ توریت میں متعدد مقامات پر اس طرح کی چیزیں مل سکتی ھیں جن میں دشمن قوموں کے قتل عام اور مال و عزّت و آبرو لوٹنے کی نہ صرف اجازت بلکہ تاکید کی گئی ھے۔ ان کی تینھزار تین سو سال کی تاریخ اس طرح کے حوادث وکشت و خون سے بھری پڑی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next