دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ مبدء آفرنیش و فیض ایک ھی نقطہ ھے تو پھر تمام انسانوں کی کوشش و جسجتو کا مقصد بھی وھی ایک ذاتھونی چاھیے اور جب سب کی امیداوں کا مرکز اور کوششوں کا مقصد ایک ھی نقطھھوگا تو سبھی خد کو ایک ھی خدا کا نبدہ اور ایک دوسرے کا بھائی تصوّر کریں گے جدائی اور اختلاف کا سوال ھی پیدا نھھوگا۔

ب: مساوات و عدالت۔

 ØªÙˆØ­ÛŒØ¯ اسلامی کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ تمام قدرت Ùˆ اختیار خدا Ú©Û’ ھاتھ میں متمر کزھے اور وہ بلا شرکت غیر پوری کائنات؟ کا حاکم Ùˆ مختار Ú¾Û’ عالم Ú©ÛŒ ھر شيئ پر اس Ú©ÛŒ ملکیت ثابت Ú¾Û’ تمام تر قیمتی قدرتی ذخائر اور دولت Ùˆ ثروت اسی Ú©ÛŒ پیدا کردہ ھیں اور وہ ان سب کا مالک Ùˆ مختار Ú¾Û’ خدا Ú©ÛŒ طرف سے یہ عطیہ Ùˆ بخشش تمام لوگوں Ú©Û’ لٹے عام Ú¾Û’ اور ان سے ھر ایک Ú©Ùˆ برابر سے استفادہ کرنے کا حق حاصل Ú¾Û’Û”

اس طرح ھر ایک اپنے راد و قدرت کا پابند ھے لھذا کسی کو خود سری و مطلق العنانی دکھانے کا حق حاصل نھیں ھے اگر کسی کو حکومت و اختیار حاصلھوگیا ھے تو اس کو قانون الھی کے اجراء، عمومی مصالح اور حق خدا کی حمایت و مدد کے دائرہ میں محدود رھنا چاھیئے۔ ھر طرح کے طبقاتی اختلافات جو عام طور پر مطلق العنانی، اختیارات کے بے جا استعمال، لوٹ کھسوٹ اور عوامی املاک کے غصب و ضبط کی بنا پر افراد یا طبقوں کے درمیان پیداھو جاتے ھیں اسلام کی نظر میں قابل مذمت ھے اور ان کی جڑیں کاٹ دینی چاھیئے۔

معلومھوا کہ توحید اپنے اصل معنوں میں انسانوں کے درمیان برابری اور بھائی چارگی کی بنیاد قائم کرتی ھے اور اجتماعی واقتصادی عدل و انصاف کی جڑیں مستحکم کرتی ھے۔

ج: فکری و معاشرتی آزادی:

خدا وند عالم نے یہ دنیا پورے نظم و ضبط اور ھر طرح کے ساز و سامان سے آراستہ خلق کی ھے اور لوگوں کو ان کے بارے میں غورو فکر کرنے نیز ان کی حقیقتوں سے بھر پور واقفیت حاصل کرنے کی دعوت دی ھے تاکہ لوگ صحیح طور پر ان سے استفادہ کر سکیں۔ چنانچہ ایک حقیقی خدا پرست کبھی بھی فکری و ذھنی اصمحلال و جمود کا شکار نھیںھوتا ھمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ھے کہ پوری آزادی کے ساتھ اس وسیع خلفت کا جائزہ لے اور کائنات کے بارہ میں صحیح تصور قائم کرے نہ تو خرافات کا اسیر بنے اور نہ ھی دین سازوں کی غلامی اختیار کرے ایسے تمام زور زبردستی کرنے والوں کے نتیجہ سے محفوظ رھے جو یہ چاھتے ھیں کہ لوگوں کو اپنی شخصی خواھشات بے رھروی اور ذاتی منفعت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔

خدائے واحد کا عقیدہ اور بھی بھت سے اخلاقی و عملی اثرات کا حامل ھے منجملہ اس انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کر کے اس کو وظیفہ شناس بناتا ھے، دوستی اور مھرو محبت کا جذبہ پیدہ کرتا ھے آدمی کو بلند ھمتی، اولوالعزمی اور فدا کاری کا سلیقہ عطا کرتا ھے۔

                                

(تیسرا حصّہ)

مختلف مذاھب میں

اجتماعی طبقہ بندی

زمانہ قدیم سے ایک اھم ترین مسئلہ جو قوموں اور ملتوں کے درمیان مورد بحث رھا ھے اور جس کو تقربا ھر زمانہ میں لوگوں نے فلسفہ و مذھب اور قوانین و اصول کی بنیاد پر اپنے اپنے خاص انداز سے مرکز توجہ قرار دیا ھے وہ یہ ھے کہ آیا تمام افراد انسانی ایک دوسرے کے مساوی و برابر ھیں یا نسل و قوم، ریگ و زبان اور معاشرتی طبقہ بندیوں کے اعتبار سے مختلف حقوق و مراعات کے حامل ھیں؟۔

طبقاتی اختلاف کا وجود چاھے اس کی بنیاد کچھ بھیھو، ظلم و ناانصافی اور حق کشی و حق تلفی کے اسباب میں سے ایک اھم ترین سبب ھے۔ اور تاریخ بشریت کے اس طویل سفر میں ایسے محروم و ستم دیدہ افراد کی کمی نھیں ھے جو عیش و عشرت اور قدرت و ثروت میں غرق افراد کے مقابلہ میں محرو میت اور نا برابری کا شکار رھے ھیں۔ چنانچہ ھم اس اختلاف کی جڑیں خود ان لوگوں کے مخصوص فلسفہ و عقائد اور معاشرتی نظام میں تلاش کر سکتے ھیں۔ ھم نے یھاں اس مسلئہ کا مذھبی نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی ھے۔

ھندووں میں طبقہ بندی (CASTE SYSTEM)

تقریبا ۵ سوسال قبل مسیح سے طبقاتی نظامھندو آریائی معاشرہ کی نمایاں خصوصیات میں سے شمار کیا جانے لگا اور پورےھندو معاشرہ کو چار طبقوں (ذات) میں تقسیم کر دیا گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next