دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



>واللہ الذی ارسل الریاح فتثیر سحابا فسقناہ الی بلد میت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذلک لنشور>[16]

خداھی وہ ھے جوھواوٴں کو بھیجتا (چلاتا) ھے کہ وہ ابر کو اس طرف سے اس طرف حرکت دے اور ان سے پھر پانی برستا ھے جس سے مردہ زمین سیرابھو تی ھے اور زمین کو حیات تازہ مل جاتی ھے روز قیامت بھی اسی کے مانند ھے۔

سورہٴ یٰسین میں ارشادھوتا ھے:۔

>وضرب لنا مثلاً ونسی خلقہ قال من یحی العظام وھی رمیم قل یحییھا الذی انشاھا اول مرة وھو بکل خلق علیم >[17]

ھمارے سامنے (جاہلیت کی)مثل پیش کرتے ھیں اور اپنی آفریینش کو بھلا بیٹھے ھیں وہ کھتے ھیں کون ھے جو انھڈیوں کو بو سیدہھونے کے بعد زندہ کر سکتا ھے (اے رسول )کہہ دو کہ جس نے تم کو وجود اول عطا کیا ھے۔ وھی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اوروہ (خدا)ھر قسم کی خلقت پر قادر وداتا ھے۔

لیکن وہ چیز جس کی طرف اشارہ کردنیا ضروی ھے، یہ ھے کہ اس دنیا میں مرنے کے بعد آخر وہ کون چیز سی باقی رہ جاتی ھے جو روز قیامت جسمانی زندگی پر منتھیھوتی ھے۔ اس منزل میں روح سے متعلق ایک نھایت ھی پیچیدہ اور مفصل بحث پیش آتی ھے اورھم اس وسیع فلسفیانہ تحقیقات میں داخل ھونے سے احتراز کرتےھوئے صرف اس حد تک عرض کر دینا چاھتے ھیں کہ قرآن کریم انسانی جان کو نفس سے تعبیر کرتا ھے اور شاید یھی انسانی زندگی کا وہ محورھو جس پر اس کی شخصیت اور وحدت قائم ھے اگرچہ انسان کی سوسالہ زندگی میں یارھا جسمانی حلئے ناکارہھو کر تباہھو جاتے ھیں اورپھر نئے خلئے ان کی جگہ حاصل کر لیتے ھیں لیکن وہ میںاپنی جگہ پر باقی ھے یعنی وہ شئے جسے محفوظ کئےھوئے مطالب اور علمی و معنوی کمالات شکل وصورت عطاکرتے ھیں اور وہ اخلاقی واجتماعی اقدار اس کی بزرگی و شھرت عطا کرتی ھیں،اگرچہ اسکا بدن ضعیف و فرسودہھو چکاھو حتی کہ وہ اپنے اعضائے جسمانی سے بھی ھاتھ دھو چکاھو۔ماضی میں قلب اور پھر دماغ کوانسانی وجود میں مرکزی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ احساس و ادراک و تفکروحافطہ کے سلسلے میں دماغ کی عظمت واھمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا لیکن کیا اس کو بھی ادراکی وعقلائی امور کا و سیلہ و ذریعہ قرار نھیں دیا جا سکتا ؟

بھر حال کچھ بھیھو علم و تعقل، برھان واستدلال اوراردادہ وتفکر نیز ان کے مانند دیگر مسائل، مادی ومعیاروں اور فیزیکل پیمانوں سے ناپے اور درک نھیں کئے جا سکتے حتیٰ کہ انزجی کی اقسام میں سے کوئی قسم بھی ان پر صادق نھیں آتی۔ اگرچہ ھر بات کو یاد رکھنے اور یاد دلانے یا استدلال و تفکر سے کام لینے میں دماغی خلئے بروئے کار آتے ھیں، نیزانرجی اور طاقت بھی صرفھوتی ھے لیکن خود امور کلی کا استدلال و تصور واستنتاج کیا ھے۔

تقریباً سبھی حیوانات اپنی جگہ ثابت اور یکساں زندگی کے حاملھوتے ھیں یہ اور بات ھے کہ ان میں سے بعض جانوروں، مثال کے طورپر چیونٹی اور شھد کی مکھی وغیرہ کی زندگیوں میں اجتماعی عناصر ترقی یافتہ شکل میں نظر آتے ھیں پھربھی ان زندگی ھمیشہ ایک ھی ڈھرے پر بسرھوتی رھتی ھے یہ چیز صرف انسان سے مخصوص ھے کہ اس کی زندگی میں ایک تحویل پایا جاتا ھے جو کچھ اس کے اختیار میں ھے اسی پر قناعت نھیں کرتا بلکہ احساس وا دراک اورعلم وتمدن کے میدان میں بلندی کی طرف پیش قدمی کرتا رھتاھے ھر فرد اور معاشرہ علمی واخلاقی طور پر اپنی شخصیت خود بناتا ھے ترقی کرتا ھے یا تنزلی کے گڑھوں میں پہونچ جاتا ھے۔

ایک طرف کبھی تو انسان کی زندگی جب اپنی حدوں سے عبور کرتی ھے صرف اپنی ذات کے لئے افتخار و سربلندی یاننگ و عار اور ذلت و رسوائی بن کرلوگوں کی یادوں میں اور پھر تاریخ میں ھمیشہ کے لئے ثبت ھوجاتی ھے دوسری طرف کبھی ایک انسان اپنی زندگی میں ایسے امور انجام دیتا ھے کہ اس کی زندگی کی شعاعیں خود اس کے دائرہ وجود سے نکل کر دوسروں تک پہونچ جاتی ھیں اور اس کی زندگی معاشرہ اور بشریت کے لئے مفید یا مضر قرا ر پاجاتی ھے۔ اس صورت میں اس کے وجود کا دائرہ بھت زیادہ وسیعھوجاتا ھے لیکن یہ وسعت جسمانی اورفیزیکل اعتبار سے نھیںھوتی بلکہ یہ اس کی مادیھستی سے ماورا اس کے خدمات و آثا ر اور اقدامات و افکار کا نتیجہ ھیں جو معاشرہ پر اثر اندازھوئے اور اس کو جاوید بنا دیا۔

آدمی اپنے علم اورعادت واطوار سے خودکومزین کرتا ھے اوریہ ذخیرے اسکے اندر باقی رھتے ھیں اس کے وجود میں ضمھو کرنا ھیں پید نھیںھوتے یھی وجہ ھے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی انسان اپنے لئے فراھم کرتا ھے دوسری دنیا میں روشن وواضحھو کر اس کے سامنے آجاتے ھیں چنانچہ قرآن کا ارشاد ھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next