دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



اس کے باوجود ان کی اپنی طولانی تاریخ، جس میں ان کا مختلف مذاھب کے ماننے والوں سے سابقہ رھا ھے، اس بات کی گوہ ھے کہ ان کو جو آزادی وآسائش مسلمانوں کی پناہ میں حاصلھوئی وہ کبھی اور کھیں میسر نھھوگی۔ اس کے بالکل بر خلاف مختلف عصروں میں ان کی جو حالت عیسائیوں کے ساتھ رھی ھے وہ کشت و خون، سلب آزادی اور قید و بند سے معمور ھے حتی' کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس سے قبل مشرقی و مغربی پورب میں ان کی حالت کسی سے پوشیدہ نھیں ھے اگر چہ ان کی آخری ادوار میں عیسائی حکومتوں کی مدد سے ان لوگوں کا تیز و تند حملوں اور سازشوں کا رخ مسلمانوں کی طرف پھر گیا ھے اور آج بھی ان کے خونخوار حملوں اور مسلمانوں کے مقابلہ کا سلسلہ جاری ھے۔

عیسائیت:

وہ عیسائیت جس کا تعلق حضرت عیسی' کی تعلیمات سے ھے یقینا انسان دوستی، محبت ویگا نگت صلح و صفائی، عدم تشدد اور دشمنوں کے مقابلہ میں استقامت و جواں مردی پر مبنی ھے اس مین خدا کو پدر حقیقی اور تمام انسانوں کو اس کی اولاد کے طور پر پیش کیا گیا ھے مگر یھاں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ھیں،

۱۔ موجودہ عیسائی مصادر کے مطابق، اس دین نے اجتماعی مسائل سے متلق قوانین وضح نھیں کئے ھیں جبکہ ھم اچھی طرح جانتے ھیں کہ ایک معاشرہ کی وحدت ویگانگی کے لئے ایک مخصوص اجتماعی نظام اور انصاف پر مبنی قوانین نیز ان کا مناسب طور پر اجرء ونفاذ بھت ضروری ھے ورنہ عدالت و محبت کی دعوت وسیع پیمانہ پر معاشرہ کے سیاسی، اقتصادی وحقوقی ڈھانچہ میں تبدیلی لائے بغیر بھلا کیسے موثرو کار گرھو سکتی ھے۔

۲۔ اس کے علاوہ جو کچھ حضرت عیسی' لائے تھے اور جو کچھ کلیسانے رفتہ رفتہ عیسائیت کو دیا ھے ان میں زمین آسمان کا فرق ھے۔ چنانچہ ھم دیکھتے کہ عیسی' مسیح کی سادگی،تقوی' اور انسان کی دوستی اور دربار پوپ کے رئیسانہ ٹھاٹ باٹ میں نے حد فرق نظر آتا ھے قرون وسطی اور اس کے بعد کی تاریخ کلیساکے پیدا کر دہ طبقائی اختلاف کی واضح دلیل ھے چنانچہ آنکھ اور کان سے بے بھرہ، کلیسا کا دم بھرنے والوں کو امتیازات و مراعات ھیں وہ ان کے مخالفوں اور نفادوں کو میسر نھیں ھیں۔ تاریخ میں کشت و خون اور قیدو بند کے ایسے بھت سے واقعات موجود ھیں جو ارباب کلیسا اور ان کے معتقدین کی جانب سے مخالیفن کے حق میں رونماھو رھے ھیں لہذا اگر چہ دین عیسی' دوسروں حتی' کہ دشمنوں اور گناہ گاروں کے ساتھ بھی رحم و شفقت کا حکم دیتا ھے اور عمومی انصاف و محبت کی باتیں کرتا ھے لیکن ان اصولوں کہ خلاف، خود مذھب کے ذمہ داروں کی طرف سے ظلم و زیادتی اور شکنجہ و بدسلوکی کا ثبوت پیش کیا گیا اور نوبت یھاں تک پہونچی کہ ادھر آخری صدیوں میں لاکھوں مذھبی افراد استعمار واستحصال کے آلہ کار کے طور پر جانے اور پہچانے جا چکے ھیں۔

اسلام اور سماجی انصاف:

اسلام نے پوری صراحت و قطعیت کے ساتھ اعلان کیا کہ تمام انسان برابر اور بھائی بھائی ھیں۔ جائے پیدائش، رنگ، قوم، ملک اور زبان جیسی کسی کی بھی چیز کو کسی عنوان سے کسی بھی صورت میں ایک انسان کی دوسرے انسان پر برتری اور امتیاز کا معیار قرار نھیں دیا جا سکتا۔ سب ایک ھی خدا کے ماننے والے ھیں اور سب ھی چاھے کسی گروہ سے ان کا تعلقھو خدا کے بندے اور ایک دوسرے کے بھائی ھیں۔

جنگوں سے پھلے معاھدوں اور گفتگو نیز فتح و کامیابی کے بعد منتوح کے ساتھ جس طرح کے طرز وسلوک کا حکم دیا گیا ھے وہ خود اس بات کا زندہ ثبوت ھے۔

البتہ اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جاسکتا کہ بنوامیہ کے انداز کی حکومتوں نے اسلامی سماجی انصاف کو پامال کرکے یقینا دوبارہ لوگوں پر قومی و خاندانی تعصب نیز طبقاتی حاکیمت لادنے کی بھر پور کوشش کی ھے اور مدتوں غیر عرب مسلمانوں منجملہ اس کے ایرانی مسلمانوں کے ساتھ غیر عادلانہ برتاو کیا جاتا رھا ھے لیکن یہ سب کچھ اسلام کے اصل قوانین کے بالکل خلاف تھا یہ وجہ ھے کہ ھر طرح کی سختیاں جھیلنے کے باوجود ایرانی مسلمانوں نے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا اور اسلامی سماجی انصاف پر ایمان لائے۔ اور اسلام مخالف حکومتوں کے خلاف نبردآزماھوئے۔ چنانچہ اتبدائی صدیوں میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی داخلی بغاوتیں اسلامی تعلیمات کے تحت عدل و انصاف کے قیام کی خاطر عوامی جذبات و احساسات کا ایک نمونہ پیش کرتی ھیں۔ خلفاء اور حکمراں جماعت کا عمل اسلام کے خلاف دیکھ کر وہ اعتراض کرنے سے دریغ نھیں کرتے تھے۔ اس حقیقت کی صداقت کے لئے اولاد علی کی طرف سے کئے جانے والے متعدد انقلابات کا آپ جائزہ لے سکتے ھیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے دورکی حکومتوں کے خلاف بنرد آزمائی کی ھے۔

پھر بھی جھاں تک ھماری موجودہ بحث کا تعلق ھے جیسا کہ ھم پھلے بھی اشارہ کر چکے ھیں ھماری تمام تر گفتگو کا محور اسلام کے اصل اصول ودستور ھیں نہ کہ مسلمان معاشرہ کے حالات۔ کیونکہ ھم زیادہ تر مسلمانوں کی حالت و کیفیت اسلام کے حقیقی مقاصد کے خلاف پاتے ھیں اور یھی چیز اس بات کی متقاضی ھے۔ کہ صحیح معنوں میں اسلام کی نئی زندگی کے لئے ثمر بخش اقدامات کئے جائیں تاکہ اسلامی تعلیمات کے اجراء سے دنیائے بشریت کو زیادہ فائدہ حاصلھوسکے۔

پیغمبر اسلا (ص)فرماتے ھیں: عرب کو عجم پر اور عجم کو عرب پر کوئی برتری حاصل نھیں ھے، سفید فام کو سیاہ فام پر اور سیاہ فام کو سفید فام پر کوئی فضیلت نھیں ھے مگر یہ کہ پرھیزگاری وتقوی' کے ذریعہ تمام لوگ ایک گنگھی کے دندانوں کے مانند برابر ھیں۔

تمام مومنین ایک عمارت کے اجراء کی طرح ھیں جو ایک دوسرے کو بخوبی محفوظ رکھتے ھیں خدا کے بندو! ایک دوسرے کے بھائی بنے رہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next