دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



جب اس دنیا سے آدمی اپنی آنکھ بند رکرلیتا ھے تو ایک دوسرے عنوان سے اس سے بھی وسیع تر دنیا میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ھے اس دوسری زندگی میں ان ھی عادات ورفتار کے آثار ونتائج ظاھرھوتے ھیں جو دنیوی زندگی میں اس نے انجام دیئے ھیں دراصل یہ نئی زندگی دنیوی اعمال وا فعال کی نمود وتجسم ھے، وہ لوگ جو اس زندگی میں انسانیت سے گرےھوئے اخلاق وعادات۔ مثلا جرم و خیانت و حیلہ و ستم وغیرہ اپنا شعار بنائےھوئے تھے ان کی روحیں انھی پست خصلتوں میں گرفتارھوجاتی ھیں اور پھر یھی ذلت و شرارت انگیز جذبات ان کے لئے عذاب و عقاب کے شعلے بھڑکادیتے ھیں۔

اس کے برخلاف وہ لوگ جن کی زندگی سچائی، پاک دامنی،حسن سلوک اور خدمت ودیانت میں گرزی ھے آرام وراحت اور عیش و سرور میں نھاجاتے ھیں اوریہ تمام لذت وخوشی ان کے ان ھی پاکیزہ عادات واطوار اور گفتار کانتیجہ وپیداوار ھے جو ان کا دنیوی زندگی میں شعار رھا ھے۔

جی ھاں ! لوگوں کا مرنے کے بعد ان ھی چیزوں سے سابقہ رھتا ھے جو انھوں نے خود اپنے عادات واطوار کے ذریعہ اپنے لئے فراھم کی ھیں یھاں تک کہ ایک دن جب قیامت برپاھوگی خداوند عالم کے حکم سے تمام مردے پھر سے زندہ کئے جائیں گے اور ان کے بوسیدہ و پراکندہ جسموں میں دوبارہ زندگی کی روح پھونکدی جائے گی اور اپنے اعمال کے سلسلہ میں آخری باز پرس اور حساب وکتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے۔ وھاں ان کے تمام گذشتہ کردار واطوار کا نتیجہ سامنے آئے گا اور ان کے بارے میں پورے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہھو گا چنانچہ اپنے اپنے اعمال وکردار کی مناسبت سے بہشت کی سعادتیں یا جہنم کی بد بختیاں ان کے ھاتھ آئیں گی۔

معاد، آیات و روایات میں:

حیات اخروی کے موضوع پر اسلام میں مختلف پھلووں سے بڑی تشریح و تصریح کے ساتھ بحث کی گئی ھے یقینا کسی بھی دین میں اتنی تفصیل کے ساتھ انسان کی آئندہ زندگی کو مورد توجہ قرار نھیں دیا گیا ھے شاید یہ کھنا غلط نہھو کہ یہ چیز خود اس دین کے عالمی اور جاودوانیھونے کی دلیل اور خصوصیات میں سے ھے کیونکہ علم و تمدن میں انسان جس قدر پیش قدمی کرتا ھے اس کے ارتباط کا دائرہ وسیع ترھوتا جاتا ھے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے آباوٴاجداد اور دنیائے بشریت کے بارے میں غور وفکر کرتا ھے قدیم ترین انسانوں کے آثار ڈھونڈتے اوران کے رسوم و عقائد اور آداب و تہذیب کاپتہ لگانے کی جستجو کرتا رھتا ھے۔

دوسری طرف زمانہ حال پر بھی نظردوڑاتا ھے اپنے روابط و تعلقات میں وسعت پیدا کرتا ھے دوسری ملتوں اور قوموں کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے تیزی کے ساتھ خود کو دوسروں سے ھم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ھے اورکبھی کبھی استثنائی موارد میں دوسروں کے نظام و افکار میں اصلاح اور تبدیلی کی فکربھی پیداھو جاتی ھے۔ اسی طرح ایک متمدن انسان مستقبل کے بارے میں بھی غور وفکر سے کام لیتا ھے۔

مصلحین جتنے زیادہ دوراندیش اور جتنا زیادہ طویل المدت منصوبہ رکھتےھوں یہ ان کی اتنی ھی زیادہ وسعت فکر اورانسان دوستی کی دلیل سمجھی جائے گی۔ کیونکہ ایسا دیکھنے میں آتا ھے کہ اکثر علمی محافل میںھزاروں سال بعد کی زندگی کے بارے میں بحث و تحقیق کی جاتی ھے جب کہ انسانی زندگی کے ابتدائی گزشتہ ادوارمیں لوگ بھت کم ماضی یا مستقبل کے سلسلہ میں غور وفکر سے کام لیتے تھے۔

اور غالباً یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم میں جھاں گزشتہ امتوں کا ذکر کیا گیا ھے ان کے یھاں اکثر و بیشتر اسی دنیا کی جزاوٴں سزاوٴں اور زودرس نعمتوں کا بیان ملتا ھے۔ بھر حال ھم۔ معاد کے عقیدہ کو جو خود انسانی بقاکی ایک دلیل ھے، آدمی کی وسعت نظر اور بلندفکری کی دلیل قرار دے سکتے ھیں کیونکہ اس سے پتہ چلتا ھے کہ انسان اپنی چند سال کی مختصر عمر میں خود کو محدود کر کے نھیں دیکھتا بلکہ اپنے تعلقات ایک دور دراز زندگی کے لئے حفظ کے لئے کرتا ھے۔

اسلام کی نظر میں انسان باقی رھے گا کبھی بھی ختم نھیںھوگا۔البتہ ھم دیکھتے ھیں کہ مرنے کے بعد آدمی اپنے جسم اور اعضائ و جوارح سے ھاتھ دھو بیٹھتا ھے اور اس کا بدن پر اکندہھو جاتا ھے لیکن یھاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی بدن اگر چہ اپنی شکل و صورت کھو دیتا ھے پھر بھی اساسی طور پر وہ کبھی نا بود نھیںھوتا۔

چنانچہ یھاں بقائے مادہاور ثبات انرجیکے دوقانون کی طرف اشارہ کر دینا نا مناسب نہھوگا۔

البتہ قیامت میں دوبارہ جسمانی وبدنی حیات مسلم ھے یہ اور بات ھے کہ ھمیں اس بات کا علم نھیں دیا گیا ھے کہ یہ مادی تجدید حیات کس نوعیت کیھوگی۔ بھر صورت طرح طرح کی جاندار مخلوقات کی پیدائش ان میں تجدید حیات اور افزائش نسل کے مختلف طریقوں کا مطالعہ کرنے نیز غیر مرئی جراثیم (VIRUS) سے لے کر بزرگ ترین حیوانات تک تمام موجودات کی پیدائش و نشو ونما کے لئے ھموار فطری بنیادوں اور ماحول کے ساتھ ھی ساتھ مختلف طورسے ان کی نمود اور زندگی جاری رکھنے کے انداز کا مشاھدہ کرنے کے بعد ھمارے لئے کسی حد تک یہ سمجھنا ممکنھوجاتا ھے کہ کس طرح مخصوص حالات میں یہ مادی زندگی دوبارہ نئے سرے سے شروعھوتی ھے۔ اور اتفاق سے قرآن میں بھی تجدید حیات کی توجیہ کے لئے موسم بھار میں زمین کے دوبارہ زندہھوجانے،کھیتوں اور باغوں کی ترو تازگی، بارش کے اثرات اور قدرت کے مھیا کردہ ضروری ماحول نیز خود انسان کی اولین خلقت اور روئے زمین پر اس کے وجود وورود کے ذریعہ مثال دی گئی ھے۔چنانچہ سورہٴ فاطرمیں ارشادھوتا ھے: ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next