دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



(1) برھمن (مذھبی پنڈت یا روحانی پیشوا)

(۲) چھتری (اشراف وامراء)

(۳) ویش (کاروباری طبقہ)

(۴) شودر (خدمت گزار و نوکر )

ان کے علاوہ دوسرے افراد اصلا معاشرہ سے خارج تصور کئے جاتے تھے اور وہ آریا(پاک و نجیب) کے مقابلہ میں پاریا (مچھ اور ناپاک) شمارھوتے تھے۔ یہ ابدی طور پر ذیل و ناپاک تھے۔

ان میں سے ھر طبقہ خود اپنے اندر کئی کئی ذاتوں میں منقسمھو گیا اور ھر گر وہ حقوق و امتیازات کے اعتبار سے بھی مختلف تھا ایک طبقہ کو دوسرے کسی طبقہ کے ساتھ معاشرت، ازدواج اور اختلاط و تعاون کا حق حاصل نھیں تھا۔ اس طبقہ بندی کے وجودگی توجیھھندووں کے عقیدہ تناسخ کی بنیاد پر کی جاتی تھی یعنی وہ اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد ھر شخص دنیا میں دوبارہ پلٹ کر آتا ھے چنانچہ جو شخص اپنی زندگی میں جس طرح کے اعمال انجام دیتا ھے اسی کے مطابق آئندہ کسی ادنی یا اعلی' طبقہ میں اس کو دوبارہ وجود حاصلھوتا رھتا ھے تاکہ انسان اپنا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ پس اگر کسی کو پاریاوں کے درمیان وجود حاصلھو تو یہ اس کے خود اپنے اعمال کی سزا ھے جو اسے بھر حال برداشت کرنی چھاھئے تاکہ آئندہ زندگی میں اس کو کسی اعلی' طبقہ میں حاصلھو سکے۔

اس طرح طبقہ بالا میں شمولیت کی موت کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہ تھی چنانچہ کسی کا اس طبقہ بندی کے خلاف اجتماعی عدالت، کی بر قراری کی کوشش کرنا اخلاق کے خلاف شمار کیا جاتا تھا۔

اس طبقاتی اختلاف کی جڑیںھندو معاشرہ میں اتنی مضبوط اور گھری تھیں کہ مثال کے طور پر اگر ایک برھمن کسی قسم کے بھی جرم کا مرتکبھوتاھو تو ایسے پھانسی کی سزا نھیں دی جاسکتی تھی لھذا وہ اگر کسی سے بھی ناراض اور غصہ ھوتاتو اسے جآ سانی درمیان سےھٹا سکتا تھا۔ دینی و مذھبی کتب کے لکھنے پڑھنے حتی کہ سننے کا حق برھمنوں سے مخصوص تھا۔ اگر کسی پست طبقہ کی کوئی فردان کتابوں کو سننے کی کوشش کرتی تو سزا کے طور پر اس کے کانوں میں شیسہ بھر دیا جاتا۔ تلاوت کی توزبان قطع کر دی جاتی ۰۰۰ بعض حالات میں پھلے طبقہ کے افراد کو کسی اعلی' طبقہ کی فرد سے ۲۴ قدم اور برھمن سے سترّ قدم زیادہ قریب آنے کی اجازت نہ تھی۔

پار یا اور ملچھ (ناپاک) افرد نھایت ھی ذلت و کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے نھیں پست ترین کام اور خدمتیں انجام دینی پڑتیں منوقانون کے مطابق ان کے بدن سے مسھونا نجاست و ناپاکی کا باعثھوتا بلکہ ان کا قریب سے گزرجانا بھی نجسھو جانے کے لئے کافی شمار کیا جاتا تھا۔ بعض سڑکوں اور بازاروں سے ان کا گزنا بھی ممنوع تھا نہ تو وہ لوگ عمومی کنووں سے پانی پی سکتے تھے اور نہ ھی کسی مندر کے قریب سے گزر سکتے تھے۔

البتہ اس بات سے انکار نھیں کیا جاسکتا کہ اس غیر انسانی رسم کی طویل تاریخ میں وقتا فوقتا اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھتی رھی ھیں اور نتیجہ کے طور پر اصلاحی اقدامات بھیھوے ھیں اور آخر کار نئے سماجی تعلقات غیراقوام سے ارتباط و معاشرت، ضعتی زندگی کے تقاضوں اور مھاتما گاندی، نیز دیگر افراد کی کوششوں سے آزادھندوستان آیئن سازا سمبلی نے ۱۹۴۸ میں نجاست انسانی کے تصوّر کو سرکاری طور پر منسوخ کر دیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next