دین ایک تقابلی مطالعہ - پھلا حصّہ



ان میں محض عیسائیت کو شہنشاہ روم کنسنٹائن (۳۱۲ء) کےعیسائی مذھب قبول کرنے کے بعد یورپ میں رواج حاصلھوا اور پھرا سلام کی پیدائش اور عروج کے بعد عیسائیت کو مشرق سے رخت سفر باندھنا پڑا اس اس طرح عملی طور پر وہ مغربی دین بن گیا۔ بقیہ ادیان کی مشرقی حیثیت پر قرار رھی۔ بظاھر اس کی یھی وجہ سمجھ میں آتی ھے کہ ایک عرصہٴ دراز سے تہذیب و تمدن اور فکر وفلسفہ کا اصل مرکز سر زمین مشرق ھی رھی ھے۔

اس کا یہ مطلب ھر گز نھیں ھے کہ ھم اصولی طور پر مغرب میں پیداھونے والے ایک خاص قسم کے افکارو آداب کے منکر ھیں بلکہ ھماری گفتگو موجودہ دنیا پر حاکم اھم مذاھب سے متعلق ھے جو سب کے سب یا تو مشرقی ھیں یا کم از کم ان کی جڑیں مشرق سے وابستہ ھیں۔

سوّم:۔

شرق و غرب کے علوم وافکار اور مذاھب کے درمیان اختلاط و آمیزش کے اب تک کئی واقعات رونماھو چکے ھیں مثال کے طور پر: ۔

۱۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے سکیڑوں سال پھلے مصر وکلدان وہند کے علوم وافکار مغرب پر اثر اندازھوئے اور مشرقیوں نے مغربی فلاسفہ منجملہ فیشاغورث اور افلاطون کو متاثر کیا۔

۲۔مغربی ایشیا پر سکندر کے حملے اور (تقریباً تین سو سال قبل مسیح)ھندوستان سے شام وفلسطین کی طرف بودھ وفود کی روانگی وغیرہ نے دوبارہ مشرقی ومغربی علوم وافکار پر ایک دوسرے کے اثرات مرتب کئے۔

۳۔ایک طرف اسپین اور مڈیٹیرین کے جنوبی سواحل تک دوسری طرفھندو چین کے وسیع وعریض علاقوں تک پر چم اسلام کا لھرانا اور پھر تین چار سوسال کے بعد صلیبی جنگوں کا سلسلہ دنیا بھر کے علوم وافکار کے ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ھونے کا باعث بنا اور وسط ایشیا سے لے کر یورپ نیز مشرق بعید تک کے علاقے اس عظیم موج کی لپیٹ میں آگئے۔

۴۔(سولہویں صدی عیسوی میں)یورپ کی نشات ثانیہ اور مشرقی ممالک پر مغربی تہذیب وثقافت اور آداب و رسوم کی یلغار۔ (اس اتھل پتھل کے بارے میں جھاں تک مذھب کا تعلق ھے آیندہ صفحات میں ذرا تفصیل سے بحث کی جائے گی۔(

چھارّم:۔

مشرق ومغرب کی طرز زندگی میں عرصہ دراز سے بھت بڑا فرق رھا ھے جن میں سے چند بنیادی باتیں قابل توجہ ھیں (البتہ کمزور اور منفی پھلووں پر روشنی ڈالنا فی الحال مقصود نھیں ھے۔(

مغربی زندگی:۔

عام طور پر لوگوں میں سعی وکوشش یعنی کچھ نہ کچھ کرتے رھنے کا جذبہ پایا جاتا ھے۔ لوگوں میں زندہ رھنے اور زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوزھونے کا عقیدہ رکھتے ھیں، اسی دنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ھیں، قوی صلاحیت پر توجہ دیتے ھیں، دوسروں سے خود کو ممتاز سمجھتے ھیں، اقتدار کی خواہش، لذت پرستی، نیز تمام محسوس ادراک چیزوں کو تحت نظم و عمل قرار دے کر اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرنا ان کے امتیازات میں سے ھے، اہل مغرب دین کو معاشرہ کی پیداوار اور نیز اس دنیوی معاشرت میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے ایک (غیر مرئی)محافظ (پولیس)تصور کرتے ھیں۔

حتیٰ کہ یونانی مذاھب زیادہ تر سیاسی پہلو کے حاملھوتے تھے ان کی نظر میں خدا کو طبیعی طور پر ثابت و مشخص کیا جا سکتا ھے وہ اس کو قابل لمس ومجسم شمار کرتے ھیں (چنانچہ جب عیسائیت یونانی تہذیب وتمدن سے ھم آہنگھوئی تو انھوں نے اپنا خدا جناب عیسیٰ کی شکل میں مجسم تصور کرتےھوئے انسانی شکل کا اقرار دے دیا۔(



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 next