اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



 

اھل بیت (ع) سے محبت Ùˆ نسبت Ú©Û’ عام شرائط اور ان Ú©ÛŒ محبت Ú©ÛŒ قیمت Ú©Û’ بارے میں کہ جس Ú©Ùˆ Ú¾Ù… Ù†Û’ بیان کیا Ú¾Û’ Ú©Ú†Ú¾ عام شرطیں ھیں اھل بیت سے یہ نسبت Ùˆ محبت  اسی وقت ثمر بخش ھوتی Ú¾Û’ جس وقت یہ شرائط پورے ھوتے ھیں ،ان شرائط میں سے ایک شرط تفقہ ØŒ تعبد، تقویٰ، ورع، مومنوں اور مسلمانوں سے میل ملاپ ،نظم Ùˆ ضبط ،لوگوں Ú©Û’ ساتھ نیک برتاؤ امانتداری اور سچ گوئی بھی Ú¾Û’Û”

ان شرائط کے بغیر محبت حقیقی نھیں ھو سکتی ، بیشک حقیقی محبت اھل بیت(ع) کے سچے اتباع ھی میں ھے ۔

یہ نکات اھل بیت کی ان تعلیمات سے ماخوذ ھیں جو انھوں نے اپنے شیعوں اور اپنی پیروی کرنے والوں کودی تھیں ملاحظہ فرمائیں:

”کونوا لنا زیناً ولا تکونوا علینا شیناً“ھمارے لئے باعث زینت بنو ننگ و عار کا سبب نہ بنو۔

ائمہ اھل بیت(ع) اپنے شیعوں سے یہ چاہتے ھیں کہ وہ ان کے لئے زینت کا باعث بنیں ننگ و عار کا سبب نہ بنیں کیونکہ جب وہ اسلامی اخلاق سے آراستہ ھوں گے اور اسلامی ادب سے سنور جائیں گے تو لوگ اھل بیت (ع)کی مدح کریں گے اور یہ کھیں گے انھوں نے اپنے شیعوں کی کتنی اچھی تربیت کی ھے اور جب لوگ شیعوں کے لین دین ،بد اخلاقی ان کے غلط برتاؤ، حدودِ خدا اور اس کے حلال و حرام سے ان کی لاپروائی کو دیکھیں گے تو ،ان کی وجہ سے وہ اھل بیت (ع) پر بھی نکتہ چینی کریں گے۔

سلیمان بن مھران سے روایت ھے کہ انھوں نے کھا: میں جعفر بن محمد صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ھوا، اس وقت آپ کے پاس کچھ شیعہ بھی موجود تھے اور آپ(ع) فرما رھے تھے: اے شیعو! ھمارے لئے باعثِ زینت بنو اور ننگ و رسوائی کا سبب نہ بنو لوگوں سے نیک بات کھو، اپنی زبان پر قابو رکھو اسے بری بات اور فضول کھنے سے باز رکھو۔[1]

امام جعفر صادق(ع) سے منقول ھے کہ آپ (ع) نے فرمایا: اے شیعو! تم کوھم سے نسبت دی جاتی ھے پس تم ھمارے لئے باعثِ زنیت بنو، ھمارے لئے ننگ و عار کا سبب نہ بنو۔۔۔[2]

آپ ھی کا ارشاد ھے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے درمیان ھمیں محبوب بنا یااوران کے درمیان ھمیں مبغوض و منفور نھیں بنایا ۔ خدا کی قسم اگر وہ ھمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو اس کے ذریعہ انھیں اور عزت ملتی اور کوئی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فائق نہ ھوتا۔[3]

آپ ھی کا قول ھے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے دلوں میں ھماری محبت پیدا کی اور ان میں ھماری طرف سے بغض نھیں پیدا کیا خدا کی قسم اگر وہ ھمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ باعث عزت ھوتا اور پھر کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فوقیت حاصل نہ کر پاتا لیکن اگر ان میں سے کوئی شخص ھماری کوئی بات سن لیتا تو اس میں دس کا اور اضافہ ھوتا ۔[4]

آپ (ع) ھی سے مروی ھے کہ آپ (ع)نے فرمایا: اے عبد الاعلیٰ۔۔۔انھیں ( یعنی شیعوں کو) ھمار اسلام کہہ دیناخد ان پر رحم کرے اور یہ کہہ دینا کہ امام نے یہ کھا ھے : خدا رحم کرے اس بندے پر کہ جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف بھی مائل کیا اور ھماری طرف بھی اور وہ ان کے سامنے ایسی ھی چیز کو بیان کرتاھے جس کو اچھا سمجھتے ھیں اور ان کے سامنے ایسی چیز کا اظھار نھیں کرتا جس کو برا سمجھتے ھیں۔[5]



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next