اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



۱۔ قبول عام ھے : ”موٴمن بسرکم و علانیتکم“ میں آپ کے پوشیدہ و ظاھر پر ایمان رکھتا ھوں ۔

۲۔ انکار و ترک، اھل بیت(ع) کے تمام دشمنوں اور ان کی ٹھکرائی ھوئی تمام چیزوں کو شامل ھے۔ ”کافر بعدوکم و بما کفرتم بہ“ میں نے آپ کے دشمنوں اور آپ کی ٹھکرائی ھوئی تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا ھے ۔

۳۔ یہ قبول وانکاربصیرت و معرفت ھی سے مکمل ھوتا ھے۔ ”مستبصر بشاٴنکم و بضلالة من خالفکم“میں آپ (ع)کی عظمت و رفعت کی اور آ پ کے مخالف کی ضلالت کی معرفت و بصیرت رکھتا ھوں ۔

تصدیق

ولاء تصدیق سے جدا نھیںھو سکتی ، ولاء کے لئے شک و شبہ سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز نھیں ھے ۔ خدا وند عالم نے راہِ ولاء میں کوئی پیچیدگی نھیں رکھی ھے ۔ بیشک رب کریم نے ولاء کو توحید سے جوڑا ھے اور ولاء کو فرد و امت کا محور قرار دیا ھے، چنانچہ توحید کے بعد اسی کی طرف لوگوں کی رغبت دلائی ھے ؛فرماتا ھے : <إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رُسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا> اور فرماتا ھے : <اٴطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ اٴطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ اٴوْلِیْ الاٴمْرِ مِنْکُم>اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ولاء تک پھنچنے کے راستہ کو واضح ھونا چاہئے تاکہ ولاء کے سلسلہ میں لوگوں کے پاس دلیل و حجت ھو ،اسی لئے ولاء تصدیق سے جدا نھیں ھے اور تصدیق یقین سے ھوتی ھے اور یقین دلیل و حجت سے ھوتا ھے ۔

اور زیارت جامعہ میں اھل بیت(ع) کو اس طرح مخاطب قرار دیا ھے: ”سعد من والاکم ، و ھلک من عاداکم ، و خاب من جحد کم و ضلّ من فارقکم و فاز من تمسّک بکم، و اٴمن من لجاٴ الیکم و سلم من صدقکم و ھدی من اعتصم بکم“

جو آپ کی ولاء سے سر شار ھوا وہ کامیاب ھو گیا اور جس نے آپ سے عداوت کی وہ ھلاک ھو گیا۔ جس نے آپ (ع)کا اور آپ (ع)کے حق کا انکار کیا اس نے گھاٹا اٹھایا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ھو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیا اس نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اور جس نے آپ کی طرف پناہ لی وہ امان میں رھا اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ صحیح و سالم رھا اور جو آپ سے وابستہ ھو گیا و ہ ھدایت پا گیا۔

عضوی نسبت

۱۔ ھم ان عناصر سے بحث کریں گے جن سے ولاء وجود میں آتی ھے اس کے لئے ضروری ھے پھلے اس لفظ کے حروف کی وضاحت کی جائے جیسا کہ اس عھد میں ھمارے ادبیات کا شیوہ ھے اور یہ بہت اھم بات ھے معمولی نھیں ھے۔ اجتماعی ربط و ضبط اور رسم و راہ سے ھمارے عھد کا ادب اس لفظ کے معنی کو بیان کرنے سے قاصر ھے کیونکہ ایک طرف تو ھم خط افقی کے نہج سے لوگوں کے درمیان بحث کا اس جیسا رشتہ نھیں پاتے اور دوسری طرف خط عمودی کے اعتبار سے سیاسی قیادت ،اور ثقافتی مرجعیت اور طاعت و پیروی ھے جیسے ولاء اوران دونوں خطوں کے لحاظ سے ولا کا تعلق امت سے منفرد ھے :

۱۔ خدا و رسول اور صاحبان امر سے امت کا ربط خط عمودی کے اعتبار سے ھے، جو کہ طاعت ، محبت ، مدد ، خیر خواھی اور اتباع کی صورت میں ظاھر ھوتی ھے اس ربط کااوپر سے سلسلہ شروع ھوتا ھے : جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ھے : <اٴطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ اٴطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ اٴوْلِیْ الاٴمْرِ مِنْکُمْ> اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں سے جولوگ صاحبان امر ھیں ان کی اطاعت کرو اور نیچے کی طرف سیادت و حاکمیت اور اطاعت ھے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ھے : < إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرُ سُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِینَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰاةَ وَ یُوٴتُونَ الزَّکاةَ وَ ھُم رَاکِعُونَ > یہ خط عمودی ھے اس کا سلسلہ او پرسے شروع ھوتا ھے ۔

خط صعودی سے ھماری مراد امت کا اپنے صاحبان امر سے محبت کرنا ھے اور خط نزولی سے مراد صاحبان امر کا امت سے محبت کرنا ھے ، اس کے ایک سرے پر حاکمیت اور دوسرے پر رعایہ ھے ۔

۲۔خط افقی، یعنی لوگوں کا اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ اسی کو قرآن مجید نے اختصار کے سا تھ اس طرح بیان کیا ھے ”إنما الموٴمنون اخوة“ امام حسن عسکری (ع) نے آبہ اور قم والوں کے سامنے اس لفظ کی وضاحت اس طرح فرمائی، ”الموٴمن اٴخو الموٴمن لاٴمہ و اٴبیہ“[75]یعنی مومن، مومن کا مادری و پدری بھائی ھے ،یہ ایک ایسا لگاؤ اور محبت ھے کہ جس کی مثال دوسری امتوں ، اور شریعتوں میں نھیں ملتی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next