اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



ابان بن تغلب سے مروی ھے انھوں نے امام جعفرصادق(ع) سے روایت کی ھے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

ھمارے اوپر ھونے والے ظلم پر رنجیدہ ھونے والے کی سانس تسبیح ،ھمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ھمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جھاد ھے ۔[89]

ھم اسی خاندان سے ھیں ،ھم عقیدہ ، اصول، محبت، بغض ، ولاء اور براٴت میں ان کی طرف منسوب ھوتے ھیں۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ھونا ھے ۔لیکن ھم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاھر کرتے ھیں اور اس کو دل و نفس کی گھرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوں لاتے ھیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوں کے در میان کیوں ظاھر کرتے ھیں۔

اور اھل بیت(ع) کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین(ع) کے اظھار کی کیوں تاکید کی گئی ھے ۔

بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق(ع) سے روایت کی ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ھو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ھاں ھم ایسا ھی کرتے ھیں۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ھوں لہٰذا تم ( ان مجلسوں میں) ھمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ھمارے امرکو زندہ کیا۔[90]

یہ اظھارغم اور نعرہ زنی ھماری ایمانی کیفیت کا اعلان ھے ( یہ ھماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظھار ھے ) یہ اعلان و اظھار اور نعرہ زنی اھل بیت(ع) سے ھماری وابستگی کا اعلان ھے۔یہ وہ چیز ھے جس کی ھم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ھے جس کو ھم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ھے ۔

ھمراھی اور اتباع

شاید لفظ ھمراھی و معیت مکتب اھل بیت(ع) سے منسوب ھونے کے لئے بہترین لفظ ھے، خوشحالی و بدحالی ،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میںھم انھیں کے ساتھ ھیں،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے گویا ترانہٴ ولاء کا ایک جملہ ھے ”معکم معکم لا مع عدوکم۔۔“ میں آپ کے ساتھ ھوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نھیں ھوں ۔۔۔زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ھوا ھے : لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم “ کی بہ نسبت زیادہ وسیع ھے ۔

ثقافتی اتباع

ولاء میں اتباع کا مفھوم زیادہ وسعت رکھتا ھے ۔

یہ مفھوم جنگ و صلح، محبت و عداوت، فکر و ثقافت اور معرفت و فقہ میں اتباع کو شامل ھے۔

ھم اس سلسلہ میں ازاد ھیں کہ مشرق و مغرب میں جھاں بھی ھمیں علم ملے اسے حاصل کریں لیکن یہ بات جائز ھے اور نہ صحیح ھے کہ ھم سر چشمہ وحی کو چھوڑ کر معرفت و ثقافت دو سرے مرکز سے حاصل کریں اور اھل بیت(ع) نے معرفت و ثقافت کو وحی کے چشمے سے حاصل کیا ھے، کیوں نہ ھو وہ نبوت کے اھل بیت(ع) اور رسالت کی منزل ھیں، فرشتوں کی آمد و رفت کامرکز ھیں ،وحی کے اترنے کی جگہ ھیں اور علم کے خزینہ دار ھیں۔۔۔جیسا کہ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next