اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



زیارت جامعہ میں آیا ھے :

”اُشھِد اللّٰہ Ùˆ اٴشھد Ú©Ù… اٴنی موٴمن بکم Ùˆ بما آمنتم بہ، کافر بعدوّکم Ùˆ بماکفرتم  بہ، مستبصر بشاٴنکم، Ùˆ بضلالة من خالفکم،۔۔۔ موٴمن بسرکم Ùˆ علانیتکم، Ùˆ شاھدکم Ùˆ غائبکم“۔

میں خدا کو گوا ہ قرار دیتا ھوں اور آپ حضرات -اھل بیت (ع)-کو گواہ بناتا ھوں کہ میں آپ پر اور ھر اس چیز پر ایمان لایا ھوں کہ جس پر آپ ایمان رکھتے ھیں، میں آپ کے دشمن کا منکر ھوں اور ھر اس چیز کا دشمن ھوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ھے ، آپ کی عظمت و شان کا اور آپ کی مخالفت کرنے والے کی گمراھی کی بصیرت رکھنے والا ھوں ، آپ کے پوشیدہ و عیاں اور آپ کے حاضر و غائب پر ایمان رکھتا ھوں ۔

ھم اس معرفت پراور اس اپنے اعتماد و ایمان پر خدا اور اھل بیت(ع) کو گواہ قرار دیتے ھیں اور اس سلسلہ میں ھمیں قطعاً شک نھیں ھوتا ھے ۔

مندرجہ بالا فقرہ میں ولاء کے دو پھلو ھیں:

ایک مثبت: میں آپ پر اور ھر اس چیز پر ایمان رکھتا ھوں جس پرآپ کا ایمان ھے ۔

دوسرا منفی: وہ ھے بیزاری، میں آپ کے دشمن کا منکر ھوں ا ور ھر اس چیز سے بیزار ھوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ھے ، یھاں کفر کے معنی ٹھکرانے اور انکار کرنے کے ھیں تو اس لحاظ سے مذکورہ فقرے کے یہ معنی ھوں گے، میںنے آپ کے دشمنوں کو چھوڑ دیا ھے بلکہ ھر اس چیز کو چھوڑ دیا ھے جس کو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حضرات نے چھوڑ دیا ھے ۔

اس سے پھلے والے جملہ میں اور اس جملہ میں ولاء کی قیمت اثبات و نفی کے ایک ساتھ ھونے میں ھے۔ ایک کو قبول کرنے میں اور دوسرے کو چھوڑنے میں ھے انسان کو اکثر صرف قبول کرنے کی زحمت نھیں دی گئی ھے بلکہ اس کے ساتھ کسی چیز کو چھوڑ نے کی بھی تکلیف دی گئی ھے۔

اور قبول و انکار کو بصیرت و ذھانت کے ساتھ ھونا چاہئے ،تقلید کی بنا پر نھیں جیسا کہ لوگ ایک دوسرے کی تقلید کرتے ھیں، مستبصر بشاٴنکم و بضلالة من خالفکم۔

میں آپ(ع) کی عظمت و رفعت اورآپ(ع) کے مخالف کی ضلالت اور گمراھی کی بصیرت رکھتا ھوں اس جملہ میں درجِ ذیل تین نکات ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next