اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



ایک شخص امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ھوں اور آپ کے مخالف و مد مقابل سے بھی محبت کرتا ھوں ۔ آپ نے فرمایا: اس صورت میںتم کانے ھو ( تمھیں آدھا نظر آتا ھے) یا تم اندھے ھو یا دیکھتے ھو۔ زیارت میں وارد ھوا ھے ”موال لکم ولاٴولیائکم و مبغض لاٴعدائکم و معاد لھم“ میں آپ کا دوست ھوں اور آپ کے دوستوں کا دوست ھوں آپ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ھوں اور ان کا دشمن ھوں ۔

اس محبت Ú©ÛŒ دوسری خصلت: یہ محبت لوگوں Ú©ÛŒ محبت Ú©Û’ تحت ھوتی Ú¾Û’ بالکل ایسے Ú¾ÛŒ جیسے Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ محبت خدا Ú©ÛŒ محبت Ú©Û’ تحت ھوتی Ú¾Û’ کیونکہ راہ خد امیں محبت کرنے کادائرہ وسیع ھوتا Ú¾Û’ اس میں خود اھل بیت (ع)سے بھی محبت ھوتی Ú¾Û’ اور ان Ú©Û’ دوستوں سے بھی محبت ھوتی Ú¾Û’Û” ”موال Ù„Ú©Ù… ولاٴولیائکم“  یہ ممکن نھیں Ú¾Û’ کہ انسان کسی سے خدا Ú©Û’ لئے محبت کرے اور اس سے محبت نہ کرے کہ جس سے محبوب خدا Ú©Û’ لئے محبت کرتا Ú¾Û’Û”

اس محبت کی تیسری خصلت : یہ جنگ و صلح کے موقعہ پر عملی صورت اختیار کر لیتی ھے ، ”سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم“

چوتھی خصلت: محبت خدا کے لئے ھوتی ھے اور عداوت بھی خدا کے لئے ھوتی ھے ،یہ دونوں اجتماعی لگاؤ کا کامل نقشہ کھینچتے ھیں۔

اثبات و ابطال

اھل بیت (ع) سے محبت کرنے میں یہ واجب ھے کہ ھم ان کی ثقافت اور ان کے معارف سے دفاع کریں، جس کا انھوں نے اثبات کیا ھے اس کا ھمیں اثبات کرنا چاہئے اور جس کا انھوں نے ابطال کیا ھے ھمیں ا س کا ابطال کرنا چاہئے کیونکہ تاریخِ اھل بیت (ع) میں ثقافتی اور علمی روایتوں پر دشمنوں نے ھر چیز سے زیادہ حملے کئے ھیں چنانچہ فقھائے اھل بیت(ع) اور ان کے مکتب کے علماء نے ان کے معارف و ثقافت، ان کی فقر اور ان کی اسلام شناسی سے دفاع کیا ھے ۔

اس دائرہ میں اثبات و ابطال بھی ھے جو کہ جھاد و جنگ اور صلح و قطع تعلقی کے میدان میں ھوتا ھے ، زیارت جامعہ میں آیا ھے :

”سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم ، محقق لما حققتھم، مبطل ما اٴبطلتم“۔

جس سے آپ کی صلح ھوگی میں اس سے صلح کروں گا اور جس سے آپ کی قطع تعلقی ھوگی میرا اس سے کوئی تعلق نھیںھوگا۔ جو آپ نے ثابت کیا ھے میں اسی کو ثابت کروں گا اور جس کو آپ نے باطل قرار دیا ھے میں اس کو باطل قرار دونگا۔

میراث و انتظار

کوئی زمانہ ایسا نھیں تھا جس میں ولاء نہ رھی ھو اور یہ مستقبل میں بھی رھے گی، تاریخ کے آغاز سے، حضرت آدم (ع) اور حضرت نوح سے لے کر،تاریخ کی انتھاء تک ولاء رھے گی یھاں تک کہ آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے حضرت مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظھور فرمائیںگے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور زمین کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کرا لیں گے تاکہ خدا کا وہ وعدہ پورا ھو جائے جو اس نے تو ریت و زبور میں کیا ھے۔

<وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِاٴنَّ الاٴرضَ یَرِثُھَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ>[111]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next