اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



تعبدو بندگی

ابو المقدام سے مروی ھے کہ انھوں نے کھا: مجھ سے امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: اے ابو المقدام علی (ع)کے شیعہ تو بس وھی ھیں بھوک کے سبب جن کے چھرے مر جھائے ھوئے، بدن دبلے پتلے اورنحیف ولاغر، ھونٹ سوکھے ھوئے، شکم پشت سے چپکے ھوئے ،رنگ اڑے ھوئے اورچھرے زردھوتے ھیں، رات ھوتی ھے تو وہ زمین ھی کو اپنا فرش و بستر بنا لیتے ھیں ،اپنی پیشانیوں کو زمین پر رکھتے ھیں ،ان کے سجدے زیادہ، اشک فشانی زیادہ،ان کی دعا زیادہ اور ان کا رونا زیادہ ھوتاھے ، جب لوگ خوش ھوتے ھیں تو یہ مخزون ھوتے ھیں۔[22]

روایت ھے کہ ایک رات امیر المومنین (ع) مسجد سے نکلے ، رات چاندنی تھی آپ قبرستان میں پھنچے، آپ کے نقش قدم پر چلتے ھوئے ایک جماعت بھی آپ کے پاس پھنچ گئی آپ نے ان سے مخاطب ھو کر فرمایا: تم کون ھو؟ انھوں نے کھا:

اے امیر المونین (ع) ھم آپ کے شیعہ ھیں آ پ نے ان کی پیشانیوں کوغو ر سے دیکھا اور فرمایا: مجھے کیا ھو گیا ھے کہ میں تمھارے اندر شیعوں کی کوئی علامت نھیں پاتا ھوں ؟ انھوں نے کھا: اے امیر المومنین (ع) شیعوں کی علامت کیا ھے ؟ فرمایا: بیدار رھنے کی وجہ سے ان کے رنگ زرد، رونے کے سبب ان کی آنکھیں کمزور، مستقل کھڑے رھنے کے باعث کمر ٹیڑھی اور روزہ رکھنے کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے چپکے ھوئے اور دعا کے سبب ھونٹ مرجھائے ھوتے ھیںاور ان پر خاشعین کی گرد پڑی ھوتی ھے۔[23]

ابو نصیر سے اور انھوں نے امام صادق(ع) سے روایت کی ھے کہ آپ نے فرمایا: ھمارے شیعہ پاک دامن، زحمت کش، وفادار و امین ، عابد و زاھد، شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے، راتوں میں عبادت میں مشغول ر ھنے والے، دنوں میں روزہ رکھنے والے اپنے اموال کی زکواة دینے والے خانہ کعبہ کا حج کرنے والے اور ھر حرام چیز سے پر ھیز کرنے والے ھیں۔[24]

شیخ صدوقۺ نے ”صفات الشیعہ“میں اپنی اسناد سے محمد بن صالح سے انھوں نے ابوالعباس دینوری سے انھوں نے محمد بن حنفیہ سے روایت کی ھے کہ انھوں نے کھا: جب علی (ع)اھل جمل سے جنگ کے بعد بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کی اور آپ کے اصحاب کی دعوت کی کھاناتیارکیااوراحنف نے کسی کو آپ کو اورآ پ کے اصحاب کوبلانے کے لئے بھیجاآپ تشریف لائے اورفرمایا:اے احنف میرے اصحاب سے کھدو اندر آجائں، تو آپ کے پاس خشک مشکیزہ کی طرح خاشع و انکسارپرور ایک گروہ آیا: احنف بن قیس نے عرض کی: اے امیر المومنین (ع) ! یہ ان کاکیا حال ھے؟ کیا کم کھانے کی وجہ سے ایسا ھوا ھے؟یا جنگ کے خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ھے ؟!

آپ(ع) نے فرمایا: نھیں!اے احنف بیشک خدا وند عالم کچھ لوگوں کو دوست رکھتا ھے کہ وہ اس کیلئے اس دنیا میںعبادت کر تے رھیں(کیونکہ ان کی عبادت)ان لوگوں کی عبادت کی طرح ھے کہ جن پرقیامت کے قریب ھونے کے علم کی وجہ سے ھیجانی کیفیت طاری ھے اورقبل اس کے کہ وہ قیامت کودیکھیں انھوں نے اسکے لئے مشقت اٹھاکرخودکوتیارکیاھے اورجب وہ اس صبح کویادکرتے ھیںکہ جس میںخداکی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جائیںگئے تووہ گمان کرتے ھیں کہ جھنم کی آگ سے ایک بڑاشعلہ نکلے گااورتمام مخلوق کوان کے پروردگارکے سامنے اکٹھاکرے گااورلوگوں کے سامنے ان کے نامہ اعمال کوپیش کیاجائے گااوران کے گناھوں کی برائیاںآشکارھوجائیں گئی یہ سب سوچ کرقریب ھے کہ ان کی جانیںپگھل کرپانی پانی ھوجائیں اورانکے قلوب خوف کے پروں سے پروازکرنے لگیںاورجب خود کو بارگاہ الھی میں تنھا محسوس کرتے ھیں تودیگ کے کھولتے ھوئے پانی کی طرح کھولنے لگتے ھیں اورانکی عقلیں ان کاساتھ چھوڑدیتی ھیں۔

وہ رات کی تاریکی میں مصیبت زدہ لوگوں کی طرح آواز بلند کرتے ھیں اور اپنے نفس کے کرتوت پر غمگین رہتے ھیں لہذا ان کے بدن لاغر، ان کے دل مغموم و مخزون، ان کے چھرے کرخت، ھونٹ مر جھائے ھو ئے اور شکم پتلے ھیں، انھیں دیکھو گے تو ایسا لگے گا جیسے وہ نشہ میں ھوں ، رات کی تنھائی میں بیدار رہتے ھیں، انھوں نے اپنے ظاھری و باطنی اعمال کو خدا کے لئے خالص کر لیا ھے ، ان کے دل اس کے خوف سے بے پروا نھیں ھیں اگر تم انھیں رات میں اس وقت دیکھو کہ جب آنکھیں سورھی ھوں ، آوازیں خاموش ھو گئی ھوں اور گردش رک گئی ھوتو اس وقت قیامت کاخوف انھیں سونے سے باز رکھتا ھے ، خدا وند عالم کا ارشاد ھے : کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ھو گئے ھیںکہ ھمارا عذاب ان پر رات میں آ جائے جب سورھے ھوں ۔[25]

اور وہ گھبرا کر اٹھتے ھیں اور بآواز بلند روتے ھوئے نماز کے لئے کھڑے ھوجاتے ھیں پھر کبھی گریہ کرنے لگتے ھیں اور کبھی تسبیح پڑھتے ھیںاورکبھی اپنے محراب عبادت میںچیخ مارکر روتے ھیں،وہ تاریک رات کاانتخاب کرتے ھیں تاکہ صف باندھ کر خاموشی سے روئیں،اے اخنف اگر تم ان کو راتوں میں دیکھو کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ھیں توتم ان کو اس حالت میںپاؤگے کہ کمریں جھکی ھوئی ھیںاور اپنی نمازوں میں قرآن کے پاروں کی تلاوت کررھے ھیں، ان کے رونے اور ھائے ویلا کرنے میں شدت پیدا ھو گئی ھے جب وہ سانس لیتے ھیںتم یہ گمان کرتے ھو کہ ان کے گلے میں آگ بھری ھوئی ھے اور جب وہ گریہ کرتے ھیں توتم یہ خیال کرتے ھو کہ ان کی گردنوں کو زنجیروں میں جکڑدیا گیا ھے۔

اگر تم انھیں دن میں دیکھو گے تو تم انھیں ایسا پاؤ گے کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ھیں اور لوگوں سے اچھی بات کہتے ھیں: اور” جب ان سے جاھل مخاطب ھوتے ھیں تووہ کہتے ھیں تم سلامت رھو“[26]،اور” جب وہ کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ھیں تو احتیاط و بزرگی سے گزر جاتے ھیں“۔ [27]

اپنے قدموں کو انھوں نے تھمت والی باتوں کی طرف بڑھنے سے روک رکھا ھے اور اپنی زبانوں کو لوگوں کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے سے گنگ بنا رکھاھے اور انھوں نے اپنے کانوں کو دوسروں کی فضو ل با توں کوسننے سے روک رکھا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next