اھل بیت (ع) سے محبت اور نسبت کے شرائط



امام جعفر صادق (ع) ھی فرماتے ھیں: اے شیعو! ھمارے لئے باعث زینت بنو، سببِ ذلت و رسوائی نہ بنو، لوگوں سے اچھی اور نیک بات کھو اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور اسے فضول وبری بات کھنے سے باز رکھو۔[6]

اھل بیت(ع) خدا سے شفاعت کریں گے اور اس سے بے نیاز نھیں ھیں

بیشک اھل بیت (ع) خداکے ذریعہ بے نیاز ھیں، خدا سے بے نیاز نھیں ھیں وہ خدا کے اذن سے خدا سے شفاعت کریں گے، اس کی اجازت کے بغیر وہ کسی کی شفاعت نھیں کرے گے۔

پس جو شخص اھل بیت(ع) کی محبت و ولایت اور ان سے نسبت کے ذریعہ خدا کی عبادت و طاعت اور تقویٰ و ورع سے بے نیاز ھوناچاہتا ھے وہ مسلکِ اھل بیت (ع) سے ہٹ گیا ھے اس نے غیروں کا مذھب اختیار کر لیا ھے اور اس کو اھل بیت(ع) کی محبت و مودت سے کوئی فائدہ نھیں ھوگا۔

عمرو بن سعید بن بلال سے روایت Ú¾Û’ کہ انھوں Ù†Û’ کھا: میں امام محمد باقر (ع) Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ھوا اس وقت ھماری ایک جماعت تھی۔آپ(ع) Ù†Û’ فرمایا:تم معتدل بن جاؤ  یعنی میانہ روی اختیار کر لو کہ اس سے Ø¢Ú¯Û’ بڑھ جانے والا تمھاری طرف پلٹ آئیگا اور پیچھےرہ جانے والا تم سے ملحق ھوجائیگااور اے آل محمد Ú©Û’ شیعو! یہ جان لو کہ ھمارے اور خدا Ú©Û’ درمیان کوئی رشتہ داری نھیں Ú¾Û’ اور نہ Ú¾ÛŒ خدا Ú©Û’ اوپر ھماری کوئی حجت Ú¾Û’ اور طاعت Ú©Û’ علاوہ کسی اور چیز Ú©Û’ ذریعہ خد اکا تقرب حاصل نھیں کیا جا سکتا پھر جو خدا کا مطیع Ùˆ فرمانبردار ھوگا اس Ú©Ùˆ ھماری ولایت سے فائدہ Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ گا لیکن جو عاصی Ùˆ نافرمان ھوگا اس Ú©Ùˆ ھماری ولایت سے کوئی فائدہ نہ ھوگا اس Ú©Û’ بعد ھماری طرف مخاطب ھوئے اور فرمایا: دھوکا نہ دو اور افتراء پردازی نہ کرو۔[7]

اب جو بھی اھل بیت کو چاہتا ھے اور ان کے مکتب سے منسوب ھونا چاہتا ھے اور ان سے محبت کرتا ھے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ خدا کے اذن کے بغیر اھل بیت کسی کوکوئی نفع و نقصان نھیں پھنچا سکتے ھیں، وہ بندے ھیں خدا کی مخلوق ھیں۔ خدا کے مقرب ھیں۔ پس جوبھی اھل بیت(ع) کو چاہتا ھے اور ان کی محبت کے ذریعہ خدا کا تقریب حاصل کرنا چاہتا ھے اور خدا کی بارگاہ میں شفاعت کا طلبگار ھے اسے خدا سے ڈرنا چاہئے، اور صالحین کے راستہ پر چلنا چاہئے۔

حضرت علی (ع) سے منقول ھے کہ آپ نے فرمایا: خدا سے ڈرو! تمھیں کوئی دھوکا نہ دے اور کوئی شخص تمھیں نہ جھٹلائے،کیونکہ میرا دین وھی دین ھے جو آدم کا دین تھا جس کو خدا نے پسند کیاھے اور میںبندہ و مخلوق ھوں خدا کی مشیت کے علاوہ میں اپنے نفع و ضرر کا بھی مالک نھیں ھوں اور میں وھی چاہتا ھوں جو خدا چاہتا ھے۔[8]

تقویٰ اور ورع

اھل بیت نے اپنے شیعوں کو جو وصیتیں کی ھیں ان میں سب سے زیادہ تقوے اور ورع کی وصیتیں ھیں ،ان کے شیعہ وھی لوگ ھیں جو ان کی پیروی کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں ان کے نقش قدم پر چلتے ھیں۔ جس شیعہ کا تقویٰ اور ورع زیادہ ھوگا اھل بیت کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بھی زیادہ ھوگی ،کیونکہ تشیع کا جوھر ، اتباع، تاسی اور اقتدا ھے اور جو شخص اھل بیت کی اقتدا کرنا چاہتا ھے ان کی اقتداء کے لئے طاعتِ خد ا ، تقویٰ اور ورع کے علاوہ اور کوئی راستہ نھیں ملے گا۔

ابو الصباح کنانی سے روایت ھے وہ کہتے ھیں، میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: ھم کوکوفہ میں آپ کی وجہ سے ذلیل سمجھا جاتا ھے لوگ ھمیں جعفری کہتے ھیں، یہ سن کر امام جعفرصادق (ع) غضب ناک ھوئے اور فرمایا: تم میں سے جعفر کے اصحاب بہت کم ھیں، جعفر کے اصحاب تو وھی ھیں کہ جن کی پاکدامنی زیادہ اور جن کا عمل اپنے خالق کے لئے ھے ۔[9]

عمرو بن یحییٰ بن بسام سے روایت ھے کہ انھوں نے کھا: میں نے امام جعفرصادق(ع) سے سنا کہ فرماتے ھیں: لوگوں کے درمیان آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اوران کے شیعہ ورع و پاک دامنی کے زیادہ حقدار ھیں۔[10]

امام جعفرصادق(ع) سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا: ھمارے شیعہ ورع و جانفشانی کے اھل ھیں، وہ وقار و امانتداری کے اھل ھیں ،وہ زھد و عبادت کے اھل ھیں، شب و روزمیں اکیاون رکعت نما زپڑھتے ھیں ،راتوں کو عبادت کرتے ھیں، دن میں روزہ رکھتے ھیں ، خانہٴ خدا کا حج کر تے ھیں اور ھر حرام چیز سے پرھیز کرتے ھیں۔[11]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next