خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



لیکن ”ح۔ Úˆ Û” ن“ ØŒ ” ح۔ر۔ن“سے بہت زیادہ شباہت رکھتا Ú¾Û’ صرف تھوڑا سا فرق Ú¾Û’ لیکن یہ کیمیاوی فرق Ú¾ÛŒ عالم خلیہ  "Cells"میں اصل Ú¾Û’ مثلاً  وراثتی  "Geneticcs" اجزاء میں ”ح۔ Úˆ Û” ن“ھی اصل Ú¾Û’ اور ”ح۔ر۔ن“کا درجہ اس سے Ú©Ù… Ú¾Û’Û”

لہٰذا خلیہ کی زندگی اسی طریقہ ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی کی وجہ سے یہ اجزاء بڑھتے ھیں اور ان ھی کی وجہ سے اصل کے مطابق شکل وصورت بنتی ھے چنانچہ اس کے تحت کروڑوں سال سے انسان کی شکل وصورت اسی طریقہ پر هوتی ھے اور اس میں کوئی تبدیلی نھیں آتی، اسی طریقہ سے گدھا اور مینڈھک میں بھی ھےں کہ وہ اسی طرح کی شکل وصورت رکھتے ھیں اورا نھیں اپنے اپنے خلیوں کی بنا پر انسان بنتا ھے ، گدھا اور مینڈھک بنتا ھے او رھر مخلوق کی تمام صفات انھیں ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی بنا پر بنتی ھیں۔

اور یھی ”ح۔ Úˆ Û” ن“  ”ح۔ ر۔ ن“کو دوسرے اجزاء Ú©Û’ بنانے Ú©Û’ لئے معین کرتے ھیں تاکہ چھوٹے چھوٹے وہ اجزاء جن پر فعالیت کرنا اس ”ح۔ Úˆ Û” ن“کی شایان شان نھیں Ú¾Û’ ان ”ح۔ر۔ن“ فعالیت انجام دیں اور یہ ”ح۔ ر Û” ن“چھوٹے چھوٹے اجزاء پر حکومت کرتے ھیں یھاں تک کہ ان اجزاء Ú©ÛŒ تعداد اس قدر زیادہ هوجاتی ھیں جو معمہ Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ بن جاتی Ú¾Û’Û”

چنانچہ اس ایک خلیہ"Cell" کی ترکیب وترتیب سے انسان بنتا ھے اور انھیں سے انسان کے تمام اعضاء وجوارح بنتے ھیں اس کی وجہ سے بعض انسان پستہ قد اور بعض دیگر لوگ بلند قد هوتے ھیں بعض کالے اور بعض گورے هوتے ھیں، در حقیقت انسان کی حیات اسی خلیہ کی بنا پر هوتی ھے،جبکہ آج کا سائنس اس ترکیب کو کشف کرسکتا ھے اس کی حرکت کا مقایسہ کرسکتا ھے اور اس کے مادہ کی تحلیل اور طریقہ تقسیم کو معلوم کرسکتا ھے لیکن اس میں چھپے حیاتی اسرار کو جاننے والے ماھرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ یہ کام صرف اور صرف خداوندعالم کی ذات کا ھے۔

چنانچہ شکم مادر میں جو بچہ هوتا ھے کس طرح اپنی غذا حاصل کرتا ھے، کس طرح سانس لیتا ھے اور کس طرح اپنی حاجت کو پورا کرتا ھے ،کس طرح اپنے اندر موجود اضافی چیزوں کو باھر نکالتا ھے اور کس طرح اپنی ماں کے شکم سے جڑا هوتا ھے جس کی وجہ سے وہ غذا حاصل کرکے اپنی آخری منزل تک پهونچتا ھے، کیونکہ بچہ کی غذا اس تک پهونچنے سے پھلے کس طرح تیار هوتی ھے اور اس تک پهونچتی ھے یا جو غذا اس کے لئے باعث اذیت هوتی ھے کون سی چیز اس تک پهونچنے میں مانع هوتی ھے؟!

اور جب حمل (بچہ) اپنی آخری منزل پر پهونچ جاتا ھے تو پھر وہ کثیر غدد (رحم مادر)سے جدا هوجاتا ھے کیونکہ وہ غدد مختلف اغراض کے لئے هوتے ھیں ان میں سے بعض تو وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے رحم کھلتا او ربند هوتا ھے ان میں ھی سے بعض وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے بچہ پیر پھیلاسکتا ھے اور انھیں میں سے بعض وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے بچہ کی پیدائش طبیعی طور پر هونے میں مدد ملتی ھے۔

اور چونکہ پستان بھی ایک غدہ ھے اور جب حمل پورا هوجاتا ھے تو پھر اس میں دودھ پیدا هوجاتا ھے جو ھلکے زرد رنگ کا هوتا ھے اور واقعاً یہ عجیب چیز ھے کہ یہ دودھ ایسے کیمیاوی اجزا سے بنتا ھے جو بچے کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ھے لیکن یہ ولادت کے بعد ھی پیدا هوتا ھے اور واقعاً نظام قدرت کس قدر عظیم ھے کہ پستان مادر میں ھر روز اس دودھ میں اضافہ هوتا رہتا ھے اور اس دودھ کے اجزاء میں تبدیلی هوتی رہتی ھے کیونکہ شروع میں یہ پانی کی طرح هوتا ھے جس میں اجزاء رشد اور شکر کم هوتی ھے لیکن (بچہ کی ضرورت کے تحت) اس میں اجزاء رشد ونمو ، شکر اور چربی بڑھتی رہتی ھے۔

اور جب بچہ بڑا هوجاتا ھے تواس کے منھ میں دانت نکلنا شروع هوتے ھیں کیونکہ اس وقت بچہ کچھ کھانا کھاسکتا ھے چنانچہ انھیں دانتوں کو خدا کی نشانیوں میں شمار کیا جاتا ھے اور یہ بھی مختلف طریقہ کے هوتے ھیں کچھ کھانا کاٹنے کے لئے هوتے ھیں تو کچھ چبانے کے لئے اور ان میں چھوٹے بڑے بھی هوتے ھیں تاکہ کھانے کو اچھی طرح چبایا جاسکے، اگرچہ بعض ماھرین نے انسان کے مصنوعی دانت بنالئے ھیں یا دانتوں میں تبدیلی کے طریقے بنالئے ھیں لیکن وہ بھی خدا کی قدرت کا اقرار کرتے هوئے کہتے ھیں کہ انسان کے اصلی دانت ھی طبیعی نظام کو مکمل کرسکتے ھیں اگرچہ انھوں نے طبیعی دانتوں کی طرح مصنوعی دانت بنالئے ھیں ۔

اسی طرح جب بچہ کا دودھ چھڑایا جاتا ھے اور وہ کھانا کھانا شروع کردیتا ھے تو خداوندعالم کی بہت سی نشانیاں ظاھر هونے لگتی ھیں کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ انسان کے اندر کتنی عجیب خلقت ھے جو انسان کی زندگی کو محفوظ کرتی ھے، مثلاً انسان کے منھ میں تین راستہ هوتے ھیں ایک ناک والا، ایک سانس والا اور ایک حلق والا راستہ هوتا ھے۔

چنانچہ آج کا علم طب کہتا ھے کہ اگرکچھ گرد وغبار سانس والے راستہ سے جانا چاھے تو وہ خود بخود رک جاتا ھے اس طرح سانس والے راستہ سے غذا بھی نھیں جاسکتی جبکہ یہ سب راستے ایک دوسرے سے ملے هوئے هوتے ھیں اور اگر غبار کا ایک ذرہ بھی (کھانے پینے کی چیزیں تو دور کی بات ھے) سانس والی نالی میں پهونچ جائے تو انسان فوراً مر جائے گا اور اس کام کے لئے ”چھوٹی زبان“ کا کردار عجیب وغریب ھے جو کھانے کے راستہ سے صرف غذائی چیزوں ھی کو جانے دیتی ھے اور اس زبان کی خلقت کتنی عجیب ھے کہ دن میں سیکڑوں مرتبہ انسان کھاتاپیتا ھے لیکن کبھی بھی یہ زبان غلطی نھیں کرتی بلکہ غذا کو اپنے مخصوص راستہ ھی سے اندرجانے دیتی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next