خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



کیونکہ انسان کا درجہ حرارت ۳۷ /درجہ هوتا ھے لیکن جب مریض هوتا ھے تو یہ درجہ حرارت ۴۰ /درجہ تک پهونچ جاتا ھے ، اور جب پانی کا درجہ حرارت سوپر پهونچ جاتا ھے تو وہ بخار بن جاتا ھے، اور اس صورت میں ہزارواں درجہ کفایت کرے گا کیونکہ یہ درجہ ھر شے کو گیس کا درجہ بنادیتا ھے اس صورت میں کوئی بھی سخت سے سخت چیز پگھل جاتی ھے، پس اگر یہ درجہ حرارت ۶۰۰۰ /پر پهونچ جائے توپھر اس کائنات کا کیا حال هوگا؟!!

لہٰذا علم وعقل دونوں اس بات پر متفق ھیں کہ سورج کے جدا شدہ خلیہ کے ذریعہ حیات کا آغاز هونا محال اور ناممکن ھے، لہٰذا اس کے لئے ضروری ھے کہ ایک خالق حیّ هو جو زمین پر مخلوقات کو پیدا کرے۔

چنانچہ ایک مشهور ومعروف ماھر ”غوسٹاف بونیہ“ کا یہ قول کتنا بہترین ھے:

”اگرھم نے زندہ مادہ کو خلق کیا ھے تو پھر یہ فکر کرنا کیسے ممکن ھے کہ کتنے ھی اجتماعی ،وراثتی اور پیچیدہ پیش آنے والے خصائص ”پروٹوپلازم حیّ“کے ٹکڑے میں پائے جاتے ھیں۔؟“

.....

قارئین کرام !    ان تمام باتوں Ú©ÛŒ تفصیل Ú©Û’ بعد Ú¾Ù… یھاں ایک یہ اھم سوال کرنا چاہتے ھیں:

”یہ پھلی موجود جس میں پھلے حیات نہ تھی کھاں سے آئی؟ اور کس طرح مختلف حالات میں تبدیل هوئی؟ جبکہ اس میں پھلے کبھی حیات نہ تھی۔کیا یہ عدم سے وجود میں آگئی؟ یا مردہ مادہ سے پیدا هوئی؟!!

اور کس طرح ایک مردہ شے سے زندہ چیز بن سکتی ھے اور وجود، عدم سے کیسے بن سکتا ھے۔؟“

اس سوال کا جواب سائنس کے پاس مفروضوں اور تخمینوں کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے۔

مثلاً ایک صاحب کہتے ھیں کہ یہ پھلی مخلوق ، آسمان سے شھاب( بجلی) کے ذریعہ نازل هوئی ھے ، یعنی جب بہت ھی دوری پر موجود ستاروں سے شھاب جداهوئے تو ان کے ذریعہ یہ زندگی وجود میں آئی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next