خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



قارئین کرام !   حیوانات میں کوئی ایسی زبان نھیں Ú¾Û’ جس Ú©Ùˆ سب سمجھتے هوں ØŒ بلکہ ان میں سے ھر صنف Ú©ÛŒ الگ الگ زبان هوتی Ú¾Û’ØŒ مثلاً آپ Ù…Ú©Ú‘ÛŒ Ú©Ùˆ دیکھیں ØŒ یہ جب جالا بناتی Ú¾Û’ تو اس جالے Ú©Û’ تار ان Ú©Û’ درمیان گفتگو کاوسیلہ بنتے ھےں، چنانچہ کھا جاتا Ú¾Û’ کہ جب جالے Ú©Û’ ایک طرف مذکر اور دوسری طرف مونث هو تو اسی جالے Ú©Û’ تارکے ذریعہ ان Ú©Û’ درمیان تبادلہ خیالات هوتا ھے،اور اس Ú©ÛŒ مادہ اپنے شوھر Ú©Û’ استقبال Ú©Û’ لئے اسی جالے Ú©Û’ تار Ú©Û’ ذریعہ رابطہ قائم کرتی Ú¾Û’ØŒ جس طرح آج Ú©Ù„ فون Ú©Û’ ذریعہ گفتگو Ú©ÛŒ جاتی Ú¾Û’Û”

اور جب ھم مرغی کو دیکھتے ھیں تو اس کے اندر الٰھی شاہکار کی بہت سی عحیب وغریب نشانیاں پاتے ھیں، چنانچہ ھمارے لئے درج ذیل حقائق پر نظرکرکے خالق خائنات کی معرفت حاصل کرنا ھی کافی ھے:

ایک امریکی ماھر نے مرغی کے انڈے سے بغیر مرغی کے بچہ نکالنا چاھا ،چنانچہ اس نے انڈے کو ایک مناسب حرارت (گرمی) میں رکھا ، جس مقدار میں مرغی انڈے کو حرارت پهونچاتی ھے ، لہٰذا اس نے چند عدد انڈوں کو جمع کرکے ایک مشین میں رکھا ،وھاں موجود ایک کاشتکار نے اس کو بتایا کہ انڈوں کو الٹتا پلٹتا رھے، کیونکہ اس نے مرغی کو دیکھا ھے کہ وہ انڈوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ھے، لیکن اس ماھر نے اس کاشتکار کا مذاق اڑاتے هوئے کھا کہ مرغی اس لئے انڈے کو بدلتی ھے تاکہ اپنے جسم کی گرمی انڈے تک پهونچاتی رھے،الغرض اس نے انڈوں کو چاروں طرف سے حرارت پهونچانے والی مشین میں رکھا لیکن جب انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آیا تو کوئی بھی انڈا نہ پھٹا تاکہ اس سے بچہ نکلتا، (وہ حیران هوگیا) اور دوبارہ اس نے کاشتکار کے کہنے کے مطابق انڈوں کو مشین میں رکھ کر بچے نکلنے کی مدت تک ان کو الٹتا پلٹتا رھا، چنانچہ جب ان کا وقت آیا تو انڈے پھٹ گئے اور ان سے بچے نکل آئے۔

مرغی کے انڈوں سے بچے نکلنے میں الٹ پلٹ کرنے کی ایک دوسری علمی وجہ یہ ھے کہ جب انڈے کے اندربچہ بن جاتا ھے تو اس کی غذائی موادنیچے کے حصہ میں چلی جاتی ھے اب اگر اس کو مرغی نہ گھمائے تو وہ انڈا پھٹ جائے ، یھی وجہ ھے کہ مرغی پھلے اور آخری دن انڈوں کو نھیں پلٹتی کیونکہ اس وقت پلٹنے کی ضرورت نھیں هوتی ، پس کیا یہ تصور کیا جاسکتا ھے کہ ان اسرار کو وہ بغیر کسی الٰھی الھام کے سمجھتی ھے، جس کے سمجھنے سے انسان بھی قاصر ھے؟

چنانچہ یھی الٰھی الھام ھے جس کی بنا پر پانی میں رہنے والے جانور بالخصوص سانپ اپنی جگہ سے ہجرت کرکے دور درازگھرے سمندروں میں جیسے ”جنوبی برمودا “ چلے جاتے ھیں ، پس یہ کتنی عجیب مخلوق ھے کہ جب ان کا رشد ونمو مکمل هوجاتا ھے تو دریاؤں سے ہجرت کرکے مذکورہ سمندروں میں چلے جاتے ھیں ،وھیں انڈے دیتے ھیں اور کچھ مدت کے بعد مرجاتے ھیں لیکن ان کے بچے جو اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو نھیں پہنچانتے یہ لوگ اس راستہ کی تلاش میں رہتے ھیںکہ جدھر سے ان کے والدین آئے تھے، اس کے بعد سمندری طوفان اور تھپیڑوں سے مقابلہ کرتے هوئے اپنے آبائی وطن پهونچ جاتے ھیں اور جب ان کا رشد ونمومکمل هوجاتا ھے تو ان کو ایک مخفی الھام هوتا ھے کہ وہ جھاں پیدا هوئے تھے وھی جائیں ، لہٰذا ان چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال پیدا هوتا ھے کہ ایسی کون سی طاقت ھے جو ان کو اس طرح کا الھام عطا کرتی ھے؟!، چنانچہ یہ کھیں نھیں سنا گیا ھے کہ امریکی سمندروں کے سانپ یورپی سمندر میں شکار کئے گئے هوں، یا اس کے برعکس، اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ یورپی سانپوں کا رشد دیگر سانپوںکی بنسبت ایک سال یا اس سے زیادہ کم هوتا ھے، کیونکہ یہ لوگ طولانی مسافت طے کرتے ھیں۔

بھرحال ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ ان سانپوں کے اندر یہ طاقت اور فکرکھاںسے آئی جس کی بناپر یہ سب اپنی سمت، سمندر کی گھرائی وغیرہ کو معین کرتے ھیں،لہٰذا کیا یہ تصور کیا جاسکتا ھے کہ یہ سب ”بے جان مادہ“کی مخلوق ھیں؟!!

اسی طرح الٰھی الھام کی وجہ سے مختلف پرندے جب بڑے هوجاتے ھیں تو اپنے والدین کی طرح اپنے لئے الگ آشیانہ بناتے ھیں اور وہ بھی بالکل اسی طرح جس میں وہ رہتے چلے آئے ھیں، یعنی ان کے گھونسلوں میں کوئی فرق نھیں پایا جاتا۔

یھی الٰھی الھام ھے کہ جس کی بنا پر بعض حیوانات کے اجزاء کٹنے یا جلنے کے بعد دوبارہ اسی طرح سے بن جاتے ھیں، مثلاًجب سمندری سرطان (کیکڑا) اپنے جسم کے پنجوں کو ضائع کربیٹھتا ھے تو جلد ھی ان خلیوں کی تلاش میں لگ جاتا ھے جو اس کے پنجوں کی جگہ کام کریں اور جب خلیے بھی ناکارہ هوجاتے ھیں تووہ سمجھ جاتا ھے کہ اب ھمارے آرام کرنے کا وقت آپہنچاھے، اور یھی حال پانی میں رہنے والے دیگر جانوروں کا بھی ھے۔

اسی طرح ایک دریائی حیوان جس کو ”کثیر الارجل“(بہت سے پیر والا)کہتے ھیں اگر اس کے دوحصہ بھی کردئے جائیں تو اس میں اتنی صلاحیت هوتی ھے کہ اپنے باقی آدھے حصے سے دوسرا حصہ بھی مکمل کرلے۔

اسی طرح ”دودة الطعم“نامی کیڑے کی اگر گردن کاٹ دی جائے تووہ اس سر کے بدلے میں ایک دوسرا سر بنا لیتا ھے، جس طرح جب ھمارے جسم پر کوئی زخم هوجاتا ھے یا گوشت کا ٹکڑا الگ هوجاتا ھے تو وہ آہستہ آہستہ صحیح هوجاتا ھے اور جب یہ زخم بھرتے ھیں تو پتہ چلتا ھے کہ یہ خلیے کس طریقہ سے حرکت کرتے ھیں جن کے نتیجہ میں نیا گوشت، نئی ہڈی اور نئے ناخن یا کوئی دوسرا جز بن جاتا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next