خالق ازلی کے وجود کی ضرورت



لیکن جب خداوندعالم نے آسمانی کتابیں اور انبیاء ومرسلین بھیجے تو انسان کو یہ معلوم هوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق ھی ھمارا ربّ ھے۔

<الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَی فِی خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَی مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهو حَسِیرٌ>[1]

”جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے ،کیاتجھے خدا کی آفرینش میں کوئی کسر نظر آتی ھے؟ تو پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ھے پھر دوبارہ آنکھ اٹھاکر دیکھ تو (ھر بار تیری) نظر ناکام او رتھک کر تیری طرف پلٹ آئے گی“

بے شک انسان اپنی فطرت کے ذریعہ ھی اپنے رب کو پہچان کر اس پر ایمان لاسکتا ھے، چنانچہ یھی فطرت انسانی (جس کو لا شعو رکہتے ھیں) انسان کو اس کائنات کے خالق کے وجود تک پهونچاتی ھے جس نے ان تمام موجودات کو خلق کیا اوران کو عدم سے وجود بخشا ، ھر چیز کے لئے ایک مخصوص نظام وقوانین وضع فرمائے تاکہ ان کے تحت وہ سب اپنے فرض کو پورا کرتی هوئی اپنے اغراض ومقاصد تک پهونچ جائیں اور وہ نظام بھی ایسا هو جو دقیق اور مرتب هو جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ هو۔

اور جیسا کہ فرانس کے بعض ماھرین نے وسطی افریقا، انڈومان نیکوبار جزائر نیز جزیرہٴ مابقہ اور فلپین کے بعض علاقوں میں پائی جانے والی قوم”اقزام“( ایک پستہ قد قوم جو بڑی بھادر هوتی ھے) کی حیات کے بارے میںتحقیق کی تو اس نتیجہ تک پهونچے کہ یہ قوم ایک قدیم ترین طور وطریقہ اور ثقافت کی نشاندھی کرتی ھے جس کی بنا پر ھمیں بشر کے جنسی طور وطریقہ اور ثقافت کے بارے میں معلومات فراھم هوتی ھےں اور ھمیں پتہ چلتا ھے کہ یہ قوم ابتداء میں مشرقی ایشیاء کے جنوبی ممالک کے تمام قوم وقبیلہ پر حاکم تھی۔

چنانچہ اس جماعت کے عقائد کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماھر ”ینشمٹ“ وغیرہ نے کوئی ایسا اثر ونشانی نھیں پائی جس کی بنا پر یہ سمجھا جاسکے کہ یہ لوگ مادیات اور ارواح کی عبادت کرتے تھے لیکن ان کا سحر وجادو پر اعتقاد رکھنا یہ ناقص اور کم سے کم عقیدہ تھا،بلکہ مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ایک موجود اسمی کی عبادت کرتے تھے جس کے بارے میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ وہ سید عالم (خدا ) ھے۔

 Ú¾Ù…ارے لئے کافی Ú¾Û’ کہ Ú¾Ù… ان قدیم قبیلوں اور ان Ú©Û’ عقائد Ú©Ùˆ دیکھیں لیکن یہ تاریخ ادیان خطرناک کشف Ú¾Û’ کیونکہ وہ (مستحکم اور قطعی دلائل Ú©ÛŒ بنیاد پر) فطرت انسان اور توحید (خدا) Ú©Û’ بارے میں ایک خاص رابطہ کا اقرار کرتے تھے۔[2]

چنانچہ اسکاٹ لینڈ کے ایک دانشمند ”لانج“ کہتے ھیں:

”ھر انسان اپنے اندر ”علت“ کا نظریہ لئے هوئے ھے اور اس کا اس کائنات کے بنانے والے خالق کا عقیدہ رکھنے کا نظریہ کافی ھے۔“[3]

لہٰذا انسان نے اسی فطرت کے ذریعہ اس حقیقت کو سمجھا اورجب انسان کی یھی فطرت بسیط (غیر واضح) تھی تو اس کی دلیل بھی غیر واضح رھی اور جب فطرت انسانی واضح اور مکمل هوگئی تو انسان کی دلیل بھی واضح اور مکمل هوگئی، اس حیثیت سے کہ انسان اسی فطرت کے تحت اس بات کو مانتا رھا ھے کہ ھر اثر اپنے موٴثر پر دلالت کرتا ھے اور ھر موجود اپنے موجد (بنانے والے) پر دلالت کرتا ھے کیونکہ اونٹ کے پیر کے نشان اونٹ کے وجود پر دلالت کرتے ھیں اسی طرح پیروں کے نشانات گذرنے والوں پر دلالت کرتے ھیں توپھر یہ زمین وآسمان کس طرح لطیف وخبیر (خدا) پر دلالت نھیں کرتے۔؟!!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next