سقيفه كے حقائق



يہ كھنا كہ يہ لوگ سچے مسلمان ھوگئے تھے اور انھوں نے ماضي كے تمام واقعات و حوادث كو بھلاديا تھا يہ اس بات كي دليل ھے كہ آپ عربوں كي خصلت سے اچھي طرح واقف نھيں ھيں خاص طور پر اس زمانے كے عربوں سے،مثال كے طور پر جب سورۂ منافقون نازل ہوا اور عبد اللہ بن ابى (جو منافقين كا سردار تھا) رسوا ھوگيا تو عبداللہ بن ابي كے بيٹے نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے عرض كي كہ آپ مجھے اجازت ديجئے كہ ميں اپنے باپ كو خود ھي قتل كردوں اس لئے كہ ميں يہ نھيں چاھتا كہ كوئي دوسرا اسے قتل كرے اور ميں اس كا كينہ اپنے دل ميں ركھوں 87، صدر اسلام ميں اس قسم كي بھت سي مثاليں موجود ھيں ليكن غور كيا جائے تو صرف يھي ايك مثال كافي ھے كہ كس طرح سے ايك آدمي اس بات پر راضي ھے كہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنے باپ كو قتل كردے ليكن كوئي دوسرا اسے قتل نہ كرے كھيں ايسا نہ ھو اس كا كينہ اپنے دل ميں لئے ركھے، اس واقعہ سے يہ بات كھل كر سامنے آتي ھے كہ بعض افراد حضرت علي عليہ السلام سے كينہ كيوں ركھتے تھے۔

4۔ حضرت علي (ع) كے جوان ھونے پر اعتراض

بعض افراد دور جاھليت كے افكار ركھنے كي وجہ سے كسي بھي صورت ميں اس بات پر راضي نہ تھے كہ وہ اپنے سے كم سن ايك جوان كي اطاعت كريں يہ لوگ ايك جوان كي حكومت كو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے، مثال كے طور پر عبداللہ بن عباس فرماتے ھيں: عمر كے دور خلافت ميں ايك روز ميں عمر كے ساتھ جارھا تھا انھوں نے ميري طرف رخ كر كے كھا كہ وہ (حضرت علي (ع)) تمام افراد ميں اس امر خلافت كے سب سے زيادہ سزاوار تھے ليكن ھم دو چيزوں سے خوفزدہ تھے ايك يہ كہ وہ كمسن ھيں اور دوسرے يہ كہ وہ فرزندان عبد المطلب كو دوست ركھتے ھيں 88، دوسري مثال يہ كہ جب حضرت علي عليہ السلام كو زبردستي ابوبكر كي بيعت كے لئے مسجد ميں پكڑ كر لائے اور ابو عبيدہ نے ديكھا كہ حضرت علي عليہ السلام كسي بھي صورت بيعت نھيں كر رھے ھيں تو اس نے حضرت علي عليہ السلام كي طرف رخ كيا اور كھا كہ آپ كمسن ھيں اور يہ آپ كي قوم كے بزرگ ھيں اور آپ ان كي طرح تجربہ كار نھيں ھيں لھٰذا ابوبكر كي بيعت كرليں اور اگر آپ آئندہ زندہ رھے تو آپ صاحب فضل و معرفت، متدين، رسول (ص) كے قريب ترين فرد ھونے كي وجہ سے اس امر كے لئے سب سے زيادہ سزاوار ھيں 89، تو حضرت علي عليہ السلام كو امر حكومت كا سب سے زيادہ سزاوار اور مناسب سمجھنے كے باوجود اس بات كو قبول كرنے پر راضي نہ تھے كہ ايك جوان ان پر حكومت كرے۔

اس چيز كا مشاھدہ زيد بن اسامہ كے لشكر ميں بھي كيا جاسكتا ھے جب پيغمبر اسلام (ص) نے اسامہ كو ايك ايسے فوجي دستہ كي سرداري كے لئے منتخب كيا كہ جس ميں قوم كے بزرگان بھي شامل تھے تو بعض افراد نے پيغمبر (ص) كے اس انتخاب پر اعتراض كيا جب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اس اعتراض كا پتہ چلا تو آپ غصہ ھوئے، منبر پر تشريف لائے اور فرمايا: كہ تم لوگ اس سے پھلے اس كے والد كے انتخاب پر بھي اعتراض كرچكے ھو حالانكہ يہ اور اس كے والد سرداري كي لياقت ركھتے تھے اور ركھتے ھيں 90۔

اگر چہ ايك لحاظ سے اس كي وجہ حسد بھي ھوسكتي ھے كيوں كہ جب ان افراد نے اس چيز كا مشاھدہ كيا كہ ايك جوان "حضرت علي (ع) " جيسا كہ جو اس قدر صلاحيت اور لياقت ركھتا ھے كہ رسول خدا (ص) كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ھے اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے چلے جانے كے بعد يھي جوان ھمارا امير اور حاكم ھوگا تو شدت سے آپ سے حسد كرنے لگے۔

5۔ پيغمبر اسلام (ص) كے احكام كي نافرمانى

مسلمانوں كے درميان بعض ايسے افراد بھي تھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي اطاعت بعض شرائط كے ساتھ كيا كرتے تھے جب تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اطاعت ان كے لئے مضر نہ ھوتو كوئي بات نھيں ليكن اگر آپ (ص) كوئي ايسا حكم ديتے كہ جو ان كي خواھشات كے مطابق نہ ھوتا يا يہ كہ وہ اپني ناقص عقل سے اس كي مصلحت درك نھيں كرپاتے تھے تو كھلے عام يا مخفي طور پر اس سے سرپيچي كرتے تھے، مثال كے طور پر حجة الوداع كے موقع پر كچھ فرائض كو انجام دينے سے بعض افراد نے مخالفت كى، پيغمبر اسلام (ص) نے حج كے دوران فرمايا: اگر كوئي شخص اپنے ساتھ قرباني كے لئے جانور نھيں لايا تو وہ اپنے حج كو عمرہ ميں تبديل كردے اور جو اپنے ساتھ جانور لائے ھيں وہ اپنے احرام پر باقي رھيں، بعض افراد نے اس امر كي اطاعت كي اور بعض افراد نے مخالفت كي 91 اور ان مخالفين ميں سے ايك عمر بھي تھے 92 اور اس كي دوسري مثال صلح حديبيہ كے موقع پر عمر كا اعتراض كرنا ھے 93 ، اسي كي ايك اور مثال اسامہ كي سرداري پر اعتراض 94 اور ان كے ساتھ جانے سے انكار كرنا ھے جب كہ پيغمبر اسلام (ص) بار بار اس امر كي تاكيد كر رھے تھے كہ مھاجرين اور انصار سب كے سب اسامہ كے لشكر كے ساتھ مدينہ سے باھر چلے جائيں ليكن بعض بزرگ مھاجرين نے بھانے بنا كر اس امر كي مخالفت كي 95 يھاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) نے ان لوگوں پر لعنت بھي كي جنھوں نے آپ كے اس حكم كي مخالفت كرتے ھوئے اسامہ كے لشكر ميں شركت نھيں كي 96۔

نيز اس كي ايك اور مثال نوشتہ لكھنے كا واقعہ ھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات ميں پيش آيا 97، پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا كہ قلم اور دوات لے آؤ تاكہ تمھارے لئے ايك ايسي چيز لكھ دوں جس كے بعد تم لوگ گمراہ نہ ھوگے! ليكن عمر نے كھا كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھذيان بك رھے ھيں بعض روايات ميں يہ بھي ھے كہ بعض افراد نے كھا كہ بات وھي قابل قبول ھے جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے كھي ھے اور بعض نے كھا كہ عمر صحيح كہہ رھے ھيں 98 يہ واقعہ اس بات كي دليل ھے كہ عمر اور بعض دوسرے افراد پيغمبر (ص) كے امر كي مخالفت كرتے ھوئے آپ (ص) پر ھذيان كي تھمت لگا رھے تھے!!! جس كے بارے ميں قرآن نے صريحي طور پر فرمايا: "ما ينطق عن الھويٰ" 99۔

گذشتہ بيان كي روشني ميں اس بات كو اچھي طرح سمجھا جاسكتا ھے كہ آخر پيغمبر اسلام (ص) ابلاغ وحي كے سلسلے ميں كسي مناسب موقع كي كيوں تلاش ميں تھے؟ يقيناً صرف اس لئے كہ پيغمبر اسلام (ص) مسلمانوں كے حالات سے اچھي طرح واقف تھے كہ وہ ان كي مخالفت كريں گے يعني اگر وہ حضرت علي عليہ السلام كي جانشيني اور خلافت كا اعلان كريں تو بعض لوگ كھلم كھلّا پيغمبر كے مد مقابل آجائيں گے اور ھرگز اس امر پر راضي نہ ھونگے ليكن آيۂ تبليغ كے آخر ميں خداوند عالم نے پيغمبر اسلام (ص) كو اطمينان دلايا كہ خداوند عالم آپ كو محفوظ ركھے گا يعني خدا آپ (ص) كو لوگوں كے شر اور ان كي علني مخالفت سے محفوظ ركھے گا۔ اس بات كي تائيدہ وہ روايت كرتي ھے جو جابر بن عبداللہ انصاري اور عبداللہ بن عباس سے تفسير عياشي ميں نقل ھوئي ھے "فتخوّف رسول اللہ ان يقولوا حامىٰ ابن عمّہ وان تطغوا في ذلك عليہ" 100 يعني پيغمبر (ص) كو اس بات كا خطرہ تھا كہ لوگ كھيں گے كہ پيغمبر (ص) نے يہ كام اپنے چچا زاد بھائي كي حمايت ميں كيا ھے اور اس طرح سركشي كريں گے، اگر چہ بعض 101 نسخوں ميں "حامى" كي جگہ خابيٰ اور "تطغوا" كي جگہ يطعنوا آيا ھے كہ ايسي صورت ميں كھا جاسكتا ھے كہ پيغمبر (ص) كا خوف لوگوں كے طعنوں كي وجہ سے تھا، اگر يہ لفظ بھي ھو تو تب بھي ھماري گذشتہ بات پر دلالت كرتا ھے ليكن يہ چيز بعيد ھے كہ پيغمبر محض لوگوں كے طعنوں سے بچنے كي خاطر ابلاغ وحي كو كسي مناسب موقع كے لئے ٹال رھے ھوں، ظاھراً تطغوا والي عبارت زيادہ صحيح ھے، يعني پيغمبر (ص) كو علني مخالفت اور سركشي كا خطرہ تھا۔

ھماري اس وضاحت ÙƒÛ’ بعد اس اعتراض كا جواب بھي ديا جاسكتا Ú¾Û’ كہ اگر آيت كي مراد يہ تھي كہ ولايت علي (ع) كا اعلان كرو اور پھر خدا Ù†Û’ پيغمبر (ص) كو لوگوں ÙƒÛ’ شر سے محفوظ ركھنے كا وعدہ بھي كيا تھا تو پھر كيونكر حضرت علي (ع) پيغمبر (ص) كي وفات ÙƒÛ’ بعد خلافت پر Ù†Ú¾ÙŠÚº Ù¾Ú¾Ù†Ú† پائے مگر كيا ممكن Ú¾Û’ كہ خدا كا وعدہ پورانہ Ú¾Ùˆ ØŸ! 102 Ø§Ø³ كا جواب ÙŠÚ¾ÙŠ Ú¾Û’ كہ وحي الھي Ù†Û’ وعدہ كيا تھا كہ پيغمبر اسلام (ص) كو لوگوں كي كھلم كھلا مخالفت اور سركشي سے محفوظ ركھے گا اور ايسا Ú¾ÙŠ ھوا جيسا كہ روايات غدير اس بات كي شاھد Ú¾ÙŠÚºÛ”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next