سقيفه كے حقائق



اور يہ واضح ھے كہ يہ چيز پيغمبر (ص) كے لئے كسي بھي طرح نقص شمار نہيں ھوتي اس لئے كہ آپ كي ذمہ داري فقط تبليغ كي تھي جسے آپ نے كما حقہ انجام ديا اب جو چاھے مومن ھوجائے جو چاھے كافر 279۔

جيسا كہ بعض لوگوں كي گمراھي اور خدا و رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے احكامات سے ان كي سرپيچي كرنا رسول (ص) كے لئے كوئي نقص محسوب نہيں ھوتا اسي طرح وہ لوگ جو ايمان لے آئے سب كے سب ايمان كے ايك درجہ پر نہيں تھے بعض ايمان كے بلند درجہ پر فائز تھے اور بعض ايمان كے نچلے درجہ پر ھي باقي رھے، اب ان افراد كے ايمان كا كمزور ھونا بھي پيغمبر (ص) كے لئے كسي بھي قسم كا نقص نہيں ھے اس لئے كہ تمام افراد كي استعداد، كوششيں اور جد و جہد و امكانات ايك جيسے نہيں ھوتے، يا يوں كھا جائے كہ ھر آدمي اپني ظرفيت كے مطابق اس دريائے بے كراں سے سيراب ھوا۔

انصار اور مہاجرين اور دوسرے اصحاب پيغمبر (ص) بھي سب كے سب ايمان كے ايك درجہ پر فائز نہ تھے جسے قرآن نے بھي بيان كيا ھے كہ بعض تو فقط اسلام ھي لائے تھے اور ايمان نہ ركھتے تھے اور يہ بات واضح ھے كہ وھي شخص اپنے قوم و قبيلہ كے تعصب پر قابو پاسكتا ھے كہ جو بہت ھي زيادہ ايمان ايمان اور تقويٰ كي دولت سے مالا مال ھو، اب اگر كوئي اپنے ايمان كي كمزوري كي وجہ سے قبيلہ كے تعصب كو قابو ميں نہيں كرسكتا تو اس كا پيغمبر (ص) سے كيا ربط ھے اور يہ پيغمبر (ص) كے لئے كس طرح نقص ھے؟!

اس كے علاوہ اھل سنت كي بہت سي روايات اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد بہت سے مسلمان مرتد ھوگئے تھے، جيسا كہ جناب عائشہ كي روايت ھے آپ فرماتي ھيں "لما توفيٰ رسول اللہ ارتد العرب" 280، يعني رسول (ص) كي رحلت كے بعد عرب مرتد ھوگئے تھے۔ اب يہ نہيں معلوم كہ مسلمانوں كا مرتد ھوجانا پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے نقص شمار ھوگا يا نہيں مگر بعض لوگوں كي قبيلہ پرستي تعصب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليمات كے لئے نقص سمجھي جاتي ھے؟!

دوسري بات كہ اگر ابو مخنف كي روايت نے قبيلۂ اوس والوں كي طرف يہ نسبت دي ھے كہ وہ قبيلہ جاتي تعصب كا شكار تھے اور يہ چيز پيغمبر اسلام (ص) كي تعليمات پر انگلي اٹھانے كي وجہ سے قابل قبول نہيں ھے اس لئے كہ پيغمبر (ص) نے جن افراد كي تربيت كي تھي وہ تمام كے تمام ھر قسم كے تعصب سے پاك تھے۔ تو اب ايسے ميں بہتر ھے كہ ھم يھاں ابوبكر كي سقيفہ ميں كي جانے والي تقرير كو بيان كرديں كہ جسے اھل سنت كي صحيح روايات نے نقل كيا ھے تاكہ يہ اندازہ ھوجائے كہ اس ميں انہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليمات سے كس حد تك استفادہ كيا ھے۔

عمر نے سقيفہ كے بارےميں جو معروف خطبہ ديا تھا اس ميں سقيفہ كي كاروائي كے دوران ابوبكر كي تقرير كو انہوں نے اس طرح بيان كيا ھے كہ ابوبكر نے كہا "ولن يعرف ھذا الامر الّا لھذا الحي من قريش ھم أوسط العرب نسباً و داراً" 281، يعني يہ عہدۂ خلافت قريش كے علاوہ كسي اور كے لئے مناسب نہيں اس لئے كہ وہ نسب اور شہر كے اعتبار سے سب پر شرف ركھتے ھيں، كيا يہ كلام قبيلہ كي برتري جتانے كو ظاھر نہيں كرتا؟ كيا قريش كا نسب اور ان كا شہر دوسروں پر برتري كا سبب بن سكتا ھے؟ مگر كيا ابوبكر پيغمبر اسلام (ص) كي تعليمات سے بے بہرہ تھے كہ جو قبيلے اور شہر كي برتري كي گفتگو بيچ ميں لے آئے، كيا انہوں نے قرآن كي يہ آيت نہيں پڑھي تھي ( (انّ اكرمكم عند اللہ اتقاكم)) ؟! 282

دوسري روايت كہ جسے ابن ابي شيبہ نے ابو اسامہ سے نقل كي ھے، وہ كھتا ھے كہ ابوبكر نے سقيفہ ميں انصار سے خطاب كرتے ھوئے اس طرح كہا "ولكن لا ترضيٰ العرب ولا تقر الّا علي رجل من قريش لانھم افصح الناس ألسنة وأحسن الناس وجوھاً،و واسط العرب داراً واكثر الناس سجّية" 283 "ليكن عرب راضي نہ ھونگے اور قبول نہ كريں گے جب تك كوئي شخص قريش ميں سے نہ ھو اس لئے كہ وہ فصيح، خوبصورت، جگہ كے لحاظ سے صاحب شرف، نيك فطرت اور خوش مزاج لوگ ھيں" اور كيا كھيں؟ سقيفہ ميں ابوبكر كي يہ گفتگو كہ جس ميں قريش كي برتري كو بيان كيا جارھا ھے واضح طور پر ان كے قبيلہ جاتي تعصب كي نشاندھي كر رھي ھے جب كہ انہوں نے تقويٰ اور پرھيزگاري كي كوئي بات ھي نہيں كى، اب ايسي صورت ميں ابوبكر جو بعض اھل سنت كے نزديك بہت ھي زيادہ فضائل كے حامل ھيں بلكہ بعض نے تو يہ تك كہا ھے كہ وہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد سب سے افضل مرد ھيں جب ان كا حال يہ ھے تو اوس اور خزرج سے تعلق ركھنے والے لوگوں سے كيا توقع كي جاسكتي ھے؟

معترض نے اپنے اعتراض كے آخري حصے ميں بہت ھي عجيب و غريب بات كہي كہ "جب انصار نے حكم خدا كو سنا تو سب كے سب ابوبكر كے سامنے تسليم ھوگئے"، ھم اس كا جواب دے چكے ھيں كہ كيا ابوبكر كي گفتگو كے بعد سب كے سب تسليم ھوگئے تھے يا نہيں؟ اب رھي يہ بات كہ معترض نے ابوبكر كي تقرير كو حكم خدا بيان كرنے سے تعبير كيا ھے، ھم معترض سے يہ سوال كرتے ھيں كہ كس طرح تمام انصار ميں ايك فرد بھي حكم خدا سے آگاہ نہ تھا اور صرف ابوبكر ھي حكم خدا جانتے تھے؟! كس طرح ممكن ھے كہ وہ پيغمبر (ص) جو احكام الھي كے ابلاغ پر مامور تھے انہوں نے اس حكم خدا كو لوگوں كے لئے بيان نہ كيا ھو؟ اور يہ بات كہنا كہ ابوبكر حكم خدا سے باخبر تھے اور انہوں نے لوگوں كو حكم خدا سے آگاہ كيا، كيا يہ پيغمبر اسلام (ص) پر احكام تبليغ كے سلسلے ميں كوتاھي كرنے كي تہمت نہيں ھے؟

آخر كيا بات ھے كہ حضرت علي عليہ السلام و جناب فاطمہ (ع) كہ جو اھل بيت (ع) وحي ھيں نيز بني ھاشم اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دوسرے صحابہ نہ فقط يہ كہ اس حكم سے بے خبر تھے بلكہ وہ اس حكم كو قبول بھي نہيں كررھے تھے وہ حكم ابوبكر كي بيعت كرنا تھا۔

كيا واقعاً، وہ حكم جو ابوبكر نے سنايا تھا وہ حكم خدا تھا يا خود ان كا ذاتي حكم تھا؟۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next