سقيفه كے حقائق



2۔ اگر ايسا ھي تھا كہ جيسا اعتراض كرنے والا شخص كہہ رھا ھے كہ جب ابوبكر نے انصار كے لئے صحيح حكم كو بيان كيا تو سب نے قبول كرليا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نہ كي تو پھر يہ عمر اپنے خطبہ ميں كيا كہہ رھے ھيں كہ جب ابوبكر كي تقرير ختم ھوگئي اور انصار كے خطيب نے اپنا الگ امير بنانے كا اعلان كيا تو "فكثر اللغط وارتفعت الاصوات حتي فرقت من الاختلاف" ايك ھنگامہ اور شور و غل كا سماں تھا كہ مجھے وھاں اختلاف پيدا ھونے كا خدشہ ھوگيا، سوال يہ ھے كہ اگر سب نے قبول كرليا تھا تو پھر يہ ھنگامہ آرائي اور شور و غل كيسا تھا كہ عمر نے كھا كہ مجھے ڈر تھا كہ كھيں اختلاف نہ پھوٹ پڑے؟

كيا اس كا مطلب يہ نھيں ھے كہ انصار اس حكومت كو قبول كرنا نھيں چاھتے تھے؟ يا يہ كہ خود ان كے درميان آپس ميں اختلاف تھا، بھر حال ان تمام باتوں كي روشني ميں يہ دعويٰ بالكل بے بنياد اور كھوكھلا ھے كہ يہ كھا جائے كہ ابوبكر كي تقرير سننے كے بعد تمام انصار نے اسے قبول كرليا تھا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نھيں كي تھى!

3۔ عمر اپنے اسي خطبے كے آخر ميں كھتے ھيں كہ "خشينا ان فارقنا القوم ولم تكن بيعة ان يبايعوا رجلاً منھم بعدنا…" يعني ھميں اس بات كا ڈر تھا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ ھم اس قوم سے بيعت لئے بغير جدا ھوجائيں اور يہ اپنے ھي ميں سے كسي آدمي كي بيعت كرليں، يہ عبارت واضح طور پر انصار كي نظر اور ان كي رائے كو منعكس كر رھي ھے كہ وہ ابوبكر اور عمر پر كسي بھي قسم كا اعتماد نہ ركھتے تھے اس كے علاوہ ابوبكر اور عمر كي تقرير كے بعد بھي وہ يھي چاھتے تھے كہ اپنے ھي افراد ميں سے كسي كي بيعت كرليں۔

4۔ ابن ابي شيبہ نے ابو سامہ سے جو روايت نقل كي ھے 210 اس ميں كھا گيا ھے كہ جب ابوبكر قريش كے فضائل بيان كر چكے تو اس كے بعد كھا كہ آؤ اور عمر كي بيعت كرو تو انھوں نے منع كرديا عمر نے كھا كيوں؟ تو انصار نے كھا كہ انانيت و خود خواھي سے ڈر لگتا ھے 211، لھٰذا سوال پيدا ھوتا ھے اگر انصار ابوبكر پر مكمل اعتماد كرتے تھے تو پھر عمر كے بارے ميں كيوں ابوبكر كي پيش كش كو رد كرديا؟

5۔ وہ روايت جو "الطبقات الكبريٰ" 212 ميں ذكر ھوئي ھے "قال: لما ابطأ الناس عن ابي بكر، قال: من احقّ بھذا الأمر منّى؟ ألستُ اول من صلى؟ ألست؟ قال: فذكر خصالاً فعلھا مع النبى" اور جب لوگوں نے ابوبكر كي بيعت كرنے ميں سستي اور بے رغبتي كا مظاھرہ كيا تو انھوں نے كھا كہ كون اس منصب كے لئے مجھ سے زيادہ سزاوار ھے كيا وہ ميں نھيں ھوں كہ جس نے سب سے پھلے نماز پڑھي اور كيا ميں وہ نھيں كيا ميں وہ نھيں وغيرہ وغيرہ (راوي كا بيان ھے كہ) پھر وہ تمام كام جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ساتھ انجام دئے تھے بيان كئے، يہ روايت بھي بخوبي انصار كي ابوبكر سے بے رغبتي پر دلالت كرتي ھے كہ وہ اس بات پر مجبور ھوگئے كہ اپني تعريفيں خود ھي كرنے لگے تاكہ انصار سے اپني بات منوائي جاسكے، اگر چہ ھم ان فضيلتوں پر بھي يقين نھيں ركھتے ھيں اس لئے كہ يقيني طور پر ابوبكر وہ پھلے آدمي نھيں ھيں جنھوں نے نماز پڑھي ھے۔

6۔ ابن اثير سقيفہ كے واقعات كے بارے ميں لكھتا ھے كہ ابوبكر نے كھا كہ ميں اس بات پر راضي ھوں كہ تم عمر يا ابوعبيدہ ميں سے كسي ايك كي بيعت كرلو تو ايسے ميں تمام يا بعض انصار نے كھا كہ ھم حضرت علي عليہ السلام كے علاوہ كسي اور كي بيعت نھيں كريں گے 213، يہ مطلب اس چيز كو ثابت كرتا ھے كہ انصار حضرت علي عليہ السلام سے زيادہ كسي كو اس امر كا سزاوار نھيں سمجھتے تھے اور شيخين كي طرف كسي قسم كي كوئي خاص رغبت نھيں ركھتے تھے اور اگر شيخين بيعت كے معاملے ميں جلدي نہ كرتے تو حالات كي نوعيت كچھ اور ھوتي جس كي طرف عمر نے اپنے خطبہ ميں اشارہ بھي كيا ھے۔

7۔ بہت سے شواھد موجود ھيں كہ سعد بن عبادہ نے كسي بھي صورت ابوبكر كي بيعت نھيں كي تھى، ھم اس سلسلے ميں بھت جلد بحث كريں گے، لھٰذا يہ دعويٰ كہ ابوبكر كي بيعت سے كسي ايك شخص نے بھي انكار نہ كيا كم از كم سعد بن عبادہ كے بارے ميں صحيح نھيں ھے، اور اس بات سے صرف نظر كرتے ھيں كہ بھت سے افراد نے ابوبكر كي بيعت نھيں كي تھي اور يہ كہ سعد بن عبادہ ان ميں سے ايك تھا، لھٰذا وہ روايت جو اعتراض كرنے والے نے پيش كي ھے كہ سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي اس بات كي تصديق كرتے ھوئے كہ "حكومت قريش ميں ھوني چاھيے" ان كي بيعت كرلي تھى، مرسلہ ھونے كے ساتھ ساتھ حقيقت سے بالكل دور اور محض جھوٹ ھے۔

8۔ مسعودي مختصر مگر واضح طور پر سقيفہ كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ھے "فكانت بينہ و بين من حضر من المھاجرين في السقيفۃ منازعة طويلة و خطوب عظيمة" 214 يعني اس كے اور سقيفہ ميں حاضر بعض مھاجرين كے درميان كافي دير تك لڑائي جھگڑا اور تلخ كلامي ھوتي رھي۔ ان تمام دليلوں اور شواھد كي روشني ميں اب اس بے بنياد دعوے كي كوئي گنجائش باقي نھيں رھتي كہ جس ميں كھا گيا ھے كہ تمام انصار ابوبكر كے سامنے تسليم ھوگئے تھے اور بڑے تعجب كي بات ھے كہ كيا اعتراض كرنے والے نے ان تمام شواھد اور دليلوں كو نھيں ديكھا؟ يا يہ كہ تعصب كي بنا پر ان حقائق سے انھوں نے اپني آنكھيں بالكل بند كرليں اسي لئے انھيں بالكل نظر انداز كرديا ھے!

چوتھا اعتراض؛ واقعہ سقيفہ كے وقت حضرت علي (ع) پيغمبر (ص) كے غسل ميں مشغول نہ تھے

"ابو مخنف كي روايت كچھ مطالب كے بيان كرنے ميں دوسرے اكثر مصادر و مآخذ سے تعارض ركھتي ھے (مثال كے طور پر) ابو مخنف كي روايت ميں ھے كہ جب عمر كو (انصار كے سقيفہ ميں جمع ھونے كي) خبر ملي تو وہ سيدھے وھاں سے پيغمبر اسلام (ص) كے گھر گئے جھاں ابوبكر موجود تھے اور حضرت علي عليہ السلام مكمل توجہ كے ساتھ پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين ميں مصروف تھے يہ خبر اس خبر صحيح سے تعارض ركھتي ھے جو يہ بيان كرتي ھے كہ پيغمبر (ص) كي تجہيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئي جب كہ واقعہ سقيفہ پير كے دن رونما ھوا۔ اور اسي طرح مالك اور دوسرے افراد سے جو روايت نقل ھوئي ھے كہ اس ميں يہ ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) كے گھر گوشہ نشيني اختيار كرلي تھي نيز ابن اسحاق كا كھنا ھے كہ جب ابوبكر كي بيعت ھوگئي تو لوگ نبي (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے آئے اور اسي بات كو طبري نے ذكر كيا ھے اور ابن كثير نے پانچ مقام پر يہ كھا ھے اور ابن اثير نے بھي اسي كو نقل كيا ھے ۔" 215



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next