سقيفه كے حقائق



ہيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم وحي الھي كے مطابق غدير خم ميں حضرت علي عليہ السلام كو اپني جانشيني پر منصوب كرنے كے باوجود مناسب موقوں پر اس كي ياد آوري كراتے رھے، ليكن بعض لوگوں كي طرف سے حكومت حاصل كرنے كي مسلسل كوششوں كو ديكھتے ھوئے پيغمبر اسلام (ص) اس بات پر مجبور ھوگئے كہ حضرت علي (ع) كي جانشيني اور خلافت كو مضبوط كرنے كے لئے كچھ اور اقدامات بھي كريں ان ميں سے ايك روم كے لشكر سے نبرد آزما ھونے كے لئے لشكر كي تياري بھي تھى، اس لشكر كي تياري پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي كے آخري لمحات ميں ھوئي اور اسامہ بن زيد كو اس لشكر كا سردار بنايا گيا اور تمام انصار و مھاجرين كے بزرگ حضرات خصوصاً ابوبكر، عمر، ابوعبيدہ سے تاكيداً كھا گيا كہ وہ اسامہ كي سرداري ميں مدينہ سے باھر چلے جائيں اور جس مقام پر اسامہ كے والد شھيد ھوئے تھے وھاں كے لئے روانہ ھوجائيں۔

پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس كام كو چند مقاصد كي خاطر انجام دينا چاھتے تھے، ان ميں سے ايك مقصد بقول شيخ مفيد يہ تھا كہ مدينہ ميں كوئي فرد بھي ايسا باقي نہ رھے جو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت و حكومت پر ان سے نزاع كرے 147 اور اس سے بھي اھم بات يہ تھي كہ اسامہ جو ابھي سترہ سالہ جوان 148 تھے لشكر كا سردار بنايا گيا جب كہ وہ تمام بزرگ حضرات اور تجربہ كار لوگ موجود تھے جو اس سے پھلے جنگ احد، جنگ بدر اور خندق ميں حصہ لے چكے تھے ليكن اسامہ كو لشكر كا سردار بنا كر پيغمبر (ص) نے سب پر يہ واضح كرديا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ تم كل كے دن حضرت علي عليہ السلام كے جوان ھونے كا بھانہ بنا كر ان كي اطاعت سے سرپيچي كر بيٹھو۔

جب بعض افراد نے اسامہ كے انتخاب پر اعتراض كيا تو جيسے ھي اس اعتراض كي اطلاع پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو دي گئي تو آپ غصہ ھوئے اور فوراً منبر پر تشريف لائے اور اسامہ كے با صلاحيت اور اس امر كے لئے ان كي لياقت كے بارے ميں تقرير كي 149، ليكن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد عمر نے ابوبكر سے كھا كہ اسامہ كو لشكر كي سرداري سے ھٹا ديا جائے مگر ابوبكر نے عمر كي داڑھي پكڑ كر كھا كہ آپ كي ماں آپ كے غم ميں بيٹھے، پيغمبر (ص) نے اسے اس امر كے لئے منصوب كيا تھا اب تم چاھتے ھو كہ ميں اسے ھٹادوں 150۔

جو لوگ ھرگز يہ نھيں چاھتے تھے كہ حكومت ان كے ھاتھوں سے چلي جائے وہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ جانے سے منع كر رھے تھے اور مختلف بھانوں سے اس ميں تاخير كرا رھے تھے جب اسامہ نے ان افراد كے ان بھانوں كو ديكھا تو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور كھا كہ جب تك آپ كي طبيعت بالكل صحيح نھيں ھوجاتي لشكر مدينہ سے باھر نہ جائے اور جب آپ صحت ياب ھوجائيں تو پھر لشكر كوچ كر جائے گا ليكن پيغمبر (ص) نے اسامہ سے كھا كہ حركت كرو اور مدينہ سے باھر چلے جاؤ۔ اسامہ بار بار پيغمبر (ص) كو ان كي بيماري كا حوالہ دے رھے تھے مگر پيغمبر (ص) ھر بار انھيں جانے كے لئے كہہ رھے تھے، يھاں تك كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسامہ سے كھا كہ جو كچھ تمھيں حكم ديا گيا ھے اس پر عمل كرو اور كوچ كر جاؤ اس كے بعد آپ (ص) بے ھوش ھوگئے، پيغمبر (ص) نے ھوش ميں آنے كے بعد پھلا سوال اسامہ كے لشكر كے بارے ميں كيا اور اس بات كي تاكيد كي كہ اسامہ كے لشكر كو بھيجو اور جو شخص بھي ان كے ساتھ جانے سے منع كرے خدا اس پر لعنت كرے اور اس جملے كو كئي بار دھرايا 151۔

آخركار اسامہ كے لشكر نے كوچ كيا اور "جرف" نامي جگہ پر جاكر ٹہر گيا 152، يہ لوگ مسلسل مدينے آتے جاتے رھے يھاں تك كہ جب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم شديد بيماري كي وجہ سے مسجد نہ جاسكے تو ابوبكر فوراً پيغمبر (ص) كي جگہ پر گئے اور نماز شروع كردي۔

پيغمبر (ص) اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے اسي حالت ميں حضرت علي عليہ السلام اور فضل بن عباس كا سھارا ليكر مسجد آئے اور ابوبكر كو ھٹنے كے لئے كہا اور ان كي نماز كي كوئي پروا نہ كي اور خود پھر سے نماز پڑھائي 153 پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نماز پڑھانے كے بعد گھر تشريف لے گئے اور ابوبكر، عمر اور چند دوسرے افراد كہ جو مسجد ميں حاضر تھے انھيں بلايا اور كھا كہ كيا ميں نے تم لوگوں كو حكم نھيں ديا تھا كہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ مدينہ سے باھر چلے جاؤ، كھنے لگے جي ھاں يا رسول اللہ تو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا كہ پھر تم لوگوں نے اس پر عمل كيوں نہ كيا؟ ھر ايك نے ايك بھانہ پيش كرديا، پھر پيغمبر (ص) نے تين مرتبہ اس جملہ كي تكرار كى: كہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ جاؤ 154، اس سلسلے ميں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي كوششوں ميں سے ايك كوشش ابوسفيان كو زكٰوة كي جمع آوري كے سلسلے ميں مدينہ سے باھر بھيجنا ھے جس كو مختلف روايات بيان كرتي ھيں 155 اور شايد ابوسفيان كو يہ ذمہ داري دينے كي وجہ بھي يھي تھي۔

مخالفين كي سازشوں كو ناكام بنانے كے لئے پيغمبر (ص) ايك كوشش نوشتہ لكھنا بھي تھا ليكن جيسا كہ پھلے عرض كيا جاچكا ھے كہ بعض افراد نے اسے عملي نہ ھونے ديا ممكنھے كہ يہ سوال پيدا ھو كہ آخر نوشتہ لكھنے كا كام پيغمبر (ص) نے اپني صحت و تندرستي كے زمانہ ميں كيوں نہ انجام ديا تاكہ يہ شبہ ھي پيدا نہ ھوتا۔

تو اس كا جواب يہ ھے كہ پھلي بات تو يہ كہ اس چھوٹے سے واقعہ نے بھت سے لوگوں كے چھروں كو بے نقاب كرديا كہ وہ كس حد تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر يقين اور اعتماد ركھتے ھيں۔

دوسري بات يہ كہ پيغمبر (ص) لشكر اسامہ كي ترتيب سے مسئلہ كو حل شدہ ديكھ رھے تھے ليكن بعض افراد كي مخالفت كي وجہ سے مسئلہ برعكس ھوگيا كيونكہ ابھي تك پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے قول كي ايسي كھلي ھوئي مخالفت نہ ھوئي تھي جيسا كہ شيخ مفيد نے ذكر كيا ھے كہ جب پيغمبر (ص) نے ابوبكر، عمر اور بعض دوسرے افراد كي لشكر اسامہ ميں جانے كي مخالفت كو ديكھا تو نوشتہ لكھنے كا ارادہ كيا 156 نتيجہ يہ كہ پيغمبر اسلام (ص) نے حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور جانشيني كو مضبوط كرنے كے لئے ھر ممكنہ قدم اٹھايا مگر اس بات كو بھي مد نظر ركھنا چاھيے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھرگز اس بات كو نھيں چاھتے تھے كہ حضرت علي عليہ السلام كو لوگوں پر مسلط كرديا جائے يا كوئي ايسا كام كريں جس سے يہ معلوم ھو كہ زبردستي لوگوں پر حضرت علي (ع) كو مسلط كيا جارھا ھے بلكہ آپ چاھتے تھے ابلاغ وحي كے سلسلے ميں اپنے وظيفہ پر اچھي طرح عمل كريں اور لوگوں كو يہ بات سمجھا ديں كہ آپ ان كي فلاح و بھبود اصلاح اور ھدايت كے علاوہ كچھ نھيں چاھتے اور يقيناً آپ (ص) نے ايسا ھي كيا اب جو چاھے ھدايت كا راستہ اختيار كرے اور جو چاھے گمراھي كا۔ حضرت علي عليہ السلام خود بھي يہ نھيں چاھتے تھے كہ جس طرح بھي ممكن ھوسكے سياسي گٹھ جوڑ كر كے اپني حكومت كو مضبوط كيا جائے اس لئے كہ حضرت علي عليہ السلام حكومت كو انسانوں كي ھدايت كے لئے چاھتے تھے اور انسانوں كي ھدايت زور زبردستي اور سياسي حربوں كے بعد ممكن نھيں خاص طور سے جب كہ سياسي گٹھ جوڑ خود نقص غرض كا حصہ ھو۔

حضرت علي عليہ السلام ان تمام چيزوں سے بلند و بالا ھيں كہ وہ حكومت حاصل كرنے كے لئے اس كے پيچھے دوڑ لگائيں اور اسے لوگوں پر تحميل كريں اس لئے كہ اگر لوگ ان كي حكومت كے طلبگار ھوتے تو خود ھي پيغمبر (ص) كي وصيت پر عمل كرتے ورنہ ان كي بھاگ دوڑ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وصيتوں سے زيادہ مؤثر نھيں ھوسكتي تھي اور اس كا ثبوت يہ ھے كہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد عباس نے جو پيغمبر (ص) كے چچا تھے حضرت علي عليہ السلام سے فرمايا كہ اپنا ھاتھ آگے بڑھائيے تاكہ آپ كي بيعت كروں اور تمام بني ھاشم آپ كي بيعت كريں، آپ نے فرمايا كہ كيا كوئي ايسا بھي ھے جو ھمارے حق كا انكار كرے؟ عباس نے فرمايا كہ آپ بھت جلد ديكھ ليں گے كہ لوگ ايسا ھي كريں گے 157۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next