سقيفه كے حقائق



طبري نے اپني كتاب ميں اكثر روايات اپنے سے پہلے والے راويوں سے نقل كي ھيں اور طبري كے پاس ان كے ما قبل لكھي جانے والي كتابوں كا كافي ذخيرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ كيا اور چونكہ ان ميں سے بعض كتابيں زمانے كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ناپيد ھوگئيں تو ان كتابوں كے مطالب كو نقل كرنے كا واحد مآخذ فقط تاريخ طبرى ھي ھے اسي لئے يہ كتاب ايك خاص اھميت كي حامل ھے اور ابو مخنف كي كتاب "مقتل حسين (ع)" جو اپني نوعيت كي واحد كتاب تھي اور اس بات كا زندہ ثبوت ھے كيونكہ اس كتاب كي روايتيں تاريخ طبرى ميں متعدد مقامات پر كثرت سے ذكر كي گئي ھيں 42

تاريخ طبرى نے خلقت كي ابتداء، اس كے بعد حضرت آدم عليہ السلام سے ليكر خاتم الانبياء تك اور پھر ان كي ھجرت سے ليكر 302 ھجري تك كے ھر سال كے حالات و واقعات كو الگ الگ بيان كيا ھے۔

طبري كا كسي بھي واقعہ يا حادثہ كو نقل كرنے كا طريقہ جس كا تذكرہ انہوں نے اپنے مقدمہ ميں كيا ھے 43 يہ ھے كہ كسي واقعہ كے بارے ميں راويوں سے روايتوں كو سند كے ساتھ نقل كرنے كے بعد اس كے بارے ميں اپني رائے دئے بغير اسے قارئين كي نظر پر چھوڑ ديتے ھيں، البتہ يہ بات قابل ذكر ھے كہ طبري كے پاس جو روايتيں موجود تھيں ان ميں سے انہوں نے صرف چند روايتوں كا انتخاب كر كے انہيں اپني كتاب ميں ذكر كيا ھے ليكن واقعہ غدير كے بارے ميں انہوں نے ايك روايت بھي ذكر نہيں كي ھے۔

وہ تمام راوي جن سے طبري Ù†Û’ روايتوں كو نقل كيا Ú¾Û’ وثاقت ÙƒÛ’ اعتبار سے برابر نہيں Ú¾ÙŠÚºÛ” جيسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنى، زُھري اور واقدى يہ تمام افراد وہ Ú¾ÙŠÚº جنہوں Ù†Û’ تاريخي واقعات كو نقل كرنے ميں ايك خاص طريقۂ كار اپنايا Ú¾Û’ اور اسي طبري ÙƒÛ’ راويوں ميں سے ايك سيف بن عمر بھي Ú¾Û’ جو صرف روايتيں گڑھتا تھا اور نہايت Ú¾ÙŠ جھوٹا آدمي تھا  44Û”

اگر چہ طبري سني مذھب تھے مگر زندگي كے آخري لمحات ميں ان كے تشيع كي طرف مائل ھونے كا احتمال ديا جاسكتا ھے۔

طبري سے پھلے لكھي جانے والي وہ كتابيں جو اس گفتگو كے لئے منتخب كي گئي ھيں

1۔ السيرة النبويہ لابن ھشام:

در اصل اس كتاب كے مولف ابن اسحاق ھيں، اور سيرت نبوي پر لكھي جانے والي اھم اور مصادر كي كتابوں ميں اس كا شمار ھوتا ھے اس سے پہلے سيرت نبوي پر اتني جامع كتاب نہيں لكھي گئي تھي۔ عبدالملك بن ھشام (وفات 213 يا 218 ھجري) نے اس كتاب كي تلخيص كي اور اپنے خيال ميں اس كي كچھ غير ضروري عبارتوں كو حذف كرنے كے ساتھ ساتھ اس ميں كچھ مطالب كا اضافہ بھي كيا 45 اس كے بعد يہ كتاب "السيرة النبويہ ابن ھشام" كے نام سے مشہور ھوگئي۔

2۔ المغازي واقدى:

اس كتاب كے مولف محمد بن عمر واقدى (ولادت 130 ھجري وفات 207 ھجري) ھيں ان كا تعلق عثماني مذھب سے تھا وہ مدينہ سے تعليم حاصل كرنے كے بعد 180 ھجري ميں بغداد تشريف لائے اور مامون كي طرف سے بغداد كے قاضي مقرر ھوئے اور اسي شہر ميں انتقال كرگئے، وہ غزوات اور فتوحات كے سلسلے ميں اچھي خاصي معلومات ركھتے تھے انہوں نے ھجرت سے ليكر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت تك كي روايات كے بارےميں عمدہ تحقيق كي ھے جس كي وجہ سے وہ پيغمبر اسلام (ص) كي جنگوں كو تفصيل كے ساتھ بيان كرنے ميں كافي حد تك كامياب رھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next