سقيفه كے حقائق



ليكن جب ھم نے معترض كے كلام كے ثبوت ميں حاشيے پردئے گئے ان كے حوالوں كے مطابق سيرۂ ابن ھشام كي طرف رجوع كيا تو وھاں اس قسم كي كوئي روايت موجود نہ تھي كہ جو يہ بيان كر رھي ھو كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى بلكہ ابن ھشام نے ايك جگہ يہ كھا ھے 222 كہ "لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن رسول خدا (ص) كي تجھيز و تدفين كے لئے گئے" يہ وھي مضمون ھے كہ جسے معترض نے ابن اسحاق سے بھي نقل كيا ھے جس كي عربي عبارت يہ ھے۔ "لمّا بويع ابوبكر اقبل الناس علي جھاز رسول اللہ يو الثلاثا، طبري اور دوسرے افراد نے بھي اسي قسم كا مضمون نقل كيا ھے۔

يہ جملہ معترض كے دعوے كے برعكس يہ بيان كرتا ھے كہ لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن تجھيز پيغمبر (ص) كي طرف متوجہ ھوئے اور اس كے لئے پھنچے اور اس ميں اس بات كا ذكر نھيں ھے

كہ پھنچنے كے بعد انھوں نے كيا كيا، جو شخص كچھ بھي سمجھدار ھوگا وہ بآساني جان لے گا كہ معترض كے جملے "پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى" اور ابن اسحاق، ابن ھشام اور دوسرے افراد كے اس جملے ميں "لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے پھنچے" ميں كس قدر فرق ھے اور يہ نھايت افسوس كي بات ھے! (كہ مطلب كو موڑ توڑ كے پيش كيا گيا) اب روايت كے مضمون كي روشني ميں يہ بيان كرتے ھيں كہ روايت جو چيز بيان كرتي ھے وہ يہ ھے كہ لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے پھنچے، ليكن اس چيز كو بيان نھيں كرتي كہ لوگ كس حد تك تجھيز و تكفين ميں حصہ لے سكے، اب جب كہ يہ بات روشن ھے كہ پيغمبر (ص) كو حضرت علي عليہ السلام نے غسل ديا تھا تو اس سے كھاں سے يہ بات سمجھ ميں آتي ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين ميں كوتاھي سے كام ليا اور اسے بعد كے لئے ٹال ديا؟ اور يہ كہ لوگوں كا منگل كے دن پيغمر (ص) كي تجھيز و تكفين كي طرف متوجہ ھونا كس طرح اس بات پر دليل بن سكتا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام پير كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين سے فارغ نھيں ھوئے تھے۔

اس كے علاوہ اگر دوسرے افراد پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين سے زيادہ اھم كام ميں مصروف تھے يعني وہ سقيفہ ميں حكومت كے لئے ايك دوسرے سے زور آزمائي كر رھے تھے تو حضرت علي عليہ السلام كسي بھي كام كو پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين پر ترجيح نھيں دے رھے تھے، پھر آخر كس وجہ سے وہ اس كام ميں تاخير كرتے؟ اور يہ ايسي چيز ھے كہ جسے بعض روايات سے بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ جب بعض انصار نے حضرت علي عليہ السلام سے كھا كہ اگر آپ ابوبكر سے پھلے بيعت كا مطالبہ كرتے تو كوئي بھي شخص آپ كے بارے ميں اختلاف نہ كرتا تو حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا كہ كيا تم لوگ يہ كھنا چاھتے ھو كہ ميں حكومت حاصل كرنے كے لئے پيغمبر اسلام (ص) كے جنازے كو اسي حالت ميں چھوڑ ديتا؟! 223 اور جيسا كہ ايك روايت ميں ھے كہ جب عمر اور ان كے دوست و احباب حضرت علي عليہ السلام سے بيعت طلب كرنے كے لئے جناب فاطمہ (ع) كے دروازے پر آئے تو انھوں نے دروازے كے پيچھے سے عمر كو خطاب كرتے ھوئے كھا:

"تركتم رسول اللہ جنازة بين ايدينا وقطعتم امركم بينكم" 224 يعني رسول خدا (ص) كے جنازے كو ھمارے سامنے چھوڑ كر تم نے اپنا كام كر دكھايا، يھاں ھم اس بات سے صرف نظر كرتے ھيں كہ اس وقت خاندان رسالت پر كيا گذر رھي تھي۔

بعض مورخين كي عبارتيں بھي اسي امر كي تائيد كرتي ھيں جيسا كہ مسعودي اس بارے ميں كھتا ھے كہ "جب بعض افراد سقيفہ ميں نزاع ميں مشغول تھے تو حضرت علي عليہ السلام، عباس اور بعض دوسرے مھاجرين پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين كر رھے تھے" 225، نيز ابن ھشام كا كھنا ھے "جب ابوبكر كو سقيفہ كي كاروائي كي اطلاع دي تو اس وقت تك پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز مكمل نہ ھوئي تھى"، اس جملے كا مطلب يہ ھے كہ تجھيز شروع تو ھوچكي تھي مگر مكمل نہ ھوئي تھي 226، يہ بيان ابن ھشام كي ايك نقل كي بنا پر تھا جب كہ وہ دوسري جگہ كھتا ھے "فلما فرغ من جھاز رسول اللہ يوم الثلاثاء…" 227 يعني جب منگل كے دن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين مكمل ھوئي ۔ ۔ ۔، يہ عبارت بھي اعتراض كرنے والے كے دعوے كے مضمون سے مطابقت نھيں ركھتي اس لئے كہ اس عبارت ميں كھا گيا ھے كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن مكمل ھوئى جب كہ معترض كا كھنا تھا كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى، ان دو عبارتوں كا فرق واضح ھے اور نہ فقط يہ كہ ايك معني ميں نھيں بلكہ ممكن ھےكہ يہ آپس ميں ايك دوسرے كے معارض بھي ھوں اور عجيب بات يہ ھے كہ اعتراض كرنے والے نے ايسا مكمل واضح اور روشن بيان ھونے كے باوجود ابن ھشام كي اسي عبارت كا حوالہ ديا ھے جب كہ اگر پھلي عبارت كا حوالہ ديتا تو شايد كچھ بات بھي بنتي۔

ان تمام باتوں كے علاوہ ابن اسحاق اور ابن ھشام كي عبارتيں بنيادي طور پر آپس ميں ايك دوسرے سے معارض ھيں اور وہ روايات يہ ھيں جو يہ بيان كرتي ھيں كہ "پيغمبر (ص) اسي دن عصر كے وقت يا منگل كي شب كو دفن ھوئے" اگر ان روايات كو قبول كرليا جائے تو پھر ابن ھشام كي يہ روايت جس ميں كھا گيا ھے كہ "پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن مكمل ھوئى" شايد اور سند كے طور پر پيش نھيں كي جاسكتي اس لئے كہ پيغمبر (ص) اس سے پھلے دفن ھوچكے تھے۔

البتہ يہ كہ پيغمبر (ص) كس دن دفن ھوئے اس بارے ميں روايات اور اقوال بھت ھي زيادہ مختلف ھيں جس كي وجہ سے يقيني طور پر كسي نتيجہ تك پھنچنا بھت مشكل ھے البتہ بعض قرائن اور شواھد كي بناء پر بعض اقوال كو بعض پر ترجيح دي جاسكتي ھے، شيخ مفيد نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دفن ھونے كا وقت وھي پير كا دن بيان كيا ھے 228 بعض روايات ميں پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن منگل كھا گيا ھے جيسے عائشہ كي روايت، وہ كھتي ھيں كہ "ھم رسول (ص) كے دفن سے اس وقت آگاہ ھوئے جب منگل كي رات، وقت سحر بيلچوں كي آوازيں سنيں" 229، بعض ديگر افراد نے بھي پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن منگل ھي بتاتي ھے، جيسے كہ ابن اثير 230 نے اور بعض نے بدھ كے دن كو بھي پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن كھا ھے 231

ھماري نگاہ ميں يہ قول كہ پيغمبر اسلام (ص) اسي پير كے روز يا منگل كي شب كو دفن ھوئے دوسرے اقوال پر زيادہ ترجيح ركھتا ھے اس لئے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے پير كے روز ميں وفات پائي 232 اور حضرت علي (ع) نے بغير كسي تاخير كے اپنے احباب كے ساتھ مل كر آپ كو غسل و كفن ديا، اس كے بعد آپ نے انفرادي طور پر آنحضرت كي نماز جنازہ ادا كي 233 حضرت علي عليہ السلام كے بعد آپ كے تمام دوست احباب اور اصحاب سب ھي نے ايك ايك كر كے نماز جنازہ پڑھي 234 پھر حضرت علي عليہ السلام نے ان ھي افراد كي مدد سے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے جسم اقدس كو سپرد خاك كرديا 235 اور تدفين كے بعد جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لائے اور خلافت كے غصب ھوجانے پر احتجاجاً گوشہ نشين ھوگئے اور پھر گھر سے باھر نہ آئے 236 اس كے بعد انصار اور مھاجرين ميں سے بھي بعض صحابہ سقيفہ كي كاروائي پر اعتراض كے سلسلے ميں جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين ھوگئے 237، منگل كے دن ابوبكر كي عام بيعت كے 238 بعد ابوبكر كے فرمان كے مطابق عمر چند سپاھيوں كے ھمراہ جناب فاطمہ (ع) كے دروازے پر آئے 239 تاكہ جس طرح بھي ممكن ھوسكے ان افراد سے ابوبكر كي بيعت لي جاسكے جو جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين ھيں 240۔

جو بات مسلم ھے وہ يہ كہ حضرت علي عليہ السلام اور بني ھاشم نيز پيغمبر اسلام (ص) كے بعض صحابہ نے حضرت علي عليہ السلام كي اتباع كرتے ھوئے ابوبكر كي بيعت كرنے سے انكار كرديا 241 ليكن عمر نے دھمكي دي كہ اگر بيعت نہ كي تو گھر كو آگ لگادي جائے گي 242 ايسے ميں بعض نے عمر سے كھا كہ اس گھر ميں تو جناب فاطمہ (ع) ھيں، عمر نے كھا كہ چاھے جناب فاطمہ ھي كيوں نہ ھوں 243، بعض تاريخي كتابوں ميں يہ بات ملتي ھے كہ عمر كي دھمكي كے بعد جناب فاطمہ (ع) نے گھر ميں موجود افراد كو عمر كي دھمكي سے آگاہ كرتے ھوئے انھيں اس بات پر راضي كيا كہ وہ گھر سے باھر چلے جائيں، لھٰذا انھوں نے ايسا ھي كيا اور جاكر ابوبكر كي بيعت كرلي 244 ليكن اس بات كے پيش نظر كہ گوشہ نشين افراد كي اكثريت بني ھاشم پر مشتمل تھي اور بني ھاشم نے اس وقت تك بيعت نہ كي 245 جب تك كہ حضرت علي عليہ السلام نے بيعت نہ كي اور اكثر مورخين كا كھنا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے جب تك حضرت فاطمہ (ع) زندہ رھيں بيعت نہ كي 246 لھٰذا يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ عمر نے اپني دھمكي كو عملي كر دكھايا 247 اور حضرت علي عليہ السلام كو زبردستي مسجد تك كھينچتے ھوئے لائے اور دھمكي دي كہ اگر بيعت نہ كي تو انھيں قتل كرديا جائے گا 248، ليكن جناب فاطمہ (ع) كي طرف سے حضرت علي عليہ السلام كي زبر دست حمايت كي وجہ سے ابوبكر، حضرت علي عليہ السلام كو مجبور نہ كرسكے 249، حضرت علي (ع) جب وھاں سے باھر آئے تو سيدھے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي قبر پر گئے 250۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next