سقيفه كے حقائق



دينوري 105 اور جوھري 106 كا كھنا ھے كہ جب بعض افراد نے سقيفہ ميں ابوبكر كي بيعت كي تو بني اميہ عثمان بن عفّان كے گرد جمع ھوكر ان كي خلافت پر اتفاق نظر ركھتے تھے 107، يہ چيز خود اس بات كي شاھد ھے كہ بني اميہ حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اور اس منصب كے لئے عثمان كو پيش كيا جو بني اميہ كے درميان تقريباً ايك معتدل شخص تھے اور دوسرے افراد كي طرح سابقہ بد كرداري سے بر خوردار نہ تھے۔ اس لئے كہ انھيں كو اس وقت اس امر كے لئے بھترين فرد سمجھتے تھے، اگر چہ ھماري نظر ميں يہ اجتماع اس وقت كسي خاص حقيقت پر مبني نہ تھا بلكہ يہ كھا جاسكتا ھے كہ يہ فقط ايك سياسي كھيل تھا تاكہ آئندہ كے لئے ميدان كو ھموار كيا جائے جس كا شاھد يہ ھے كہ جب عمر نے ديكھا كہ بني اميہ عثمان كے گرد جمع ھوگئے ھيں تو كھا كہ آخر تم لوگوں نے ايسا كيوں كيا؟ آؤ اور ابوبكر كي بيعت كرو تو اس مجمع ميں سب سے پھلے عثمان اور پھر تمام بني اميہ نے ابوبكر كي بيعت كي 108۔

جوھري سے روايت ھے كہ جب عثمان كي بيعت ھوئي تو ابوسفيان نے كھا كہ پھلے حكومت قبيلہ تيم كے پاس چلي گئي جب كہ ان كا حكومت سے كيا تعلق؟ اور پھر قبيلہ عدي ميں جاكر اپنے مركز و محور سے دور ھوگئي اور اب يہ اپني صحيح جگہ واپس آئي ھے لھٰذا اسے مضبوطي سے تھامے ركھو، 109 يہ روايت اس قدر گويا ھے كہ جس كي وضاحت كي ضرورت نھيں ھے، البتہ يھاں سوال يہ پيدا ھوتا ھے كہ اگر ايسا تھا تو آخر ابوسفيان نے شروع ھي ميں ابوبكر كي بيعت كيوں نہ كى؟ اور حضرت علي عليہ السلام كے پاس جا كر كھا كہ اگر آپ چاھيں تو ابوبكر كے خلاف مدينہ كو لشكروں سے بھر دوں 110۔

اس سوال كا جواب بعض افراد نے اسے قبيلہ پرستي كے تعصب كہہ كرديا ھے اور كھا ھے كہ ابوسفيان نے قبيلہ پرستي كے تعصب كي بنا پر يہ كام كيا تھا، 111 جيسا كہ پھلي نظر ميں اس قسم كا ھي پيدا ھوتا ھے ليكن ايسا محسوس ھوتا ھے كہ اس امر كي علت كوئي دوسري چيز تھي اور وہ يہ كہ ابوسفيان بني اميہ كے نھايت چالاك اور ھوشيار لوگوں ميں سے ايك تھا لھٰذا يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ وہ اس كے پيچھے كوئي خاص اور بلند مقاصد ركھتا تھا۔

ممكن ھے كہ اس كام سے اس كا مقصد ايك ساتھ كئي چيزيں حاصل كرنا ھو، ايك يہ كہ ابوبكر كي بيعت كي مخالفت كركے ان كي طرف سے كچھ امتيازات چاھتا تھا اور اگر وہ حضرت علي (ع) كو ابوبكر كے خلاف جنگ پر آمادہ كرنے ميں كامياب ھوجاتا تو اس جنگ كے فاتح بنو اميہ اور ابوسفيان ھوتے اس لئے كہ اس كا مقصد ان دونوں گروھوں كو لڑا كر كمزور كرنا اور بني اميہ كي پوزيشن كو مستحكم كرنا تھا يا كم از كم وہ ابوبكر كو مجبور كر رھا تھا كہ وہ ان كي بيعت اس صورت ميں كرے گا جب كہ وہ اس كے لئے كسي امتياز كے قائل ھوں اور در حقيقت وہ اس امر ميں كامياب بھي ھوا اور اس طرح اس نے كافي مالي فائدہ بھي اٹھايا جيسا روايت كے بقول ابوسفيان جب زكات وصول كر واپس پلٹا تو ابوبكر نے عمر كے كھنے سے جتني جمع شدہ زكوٰة تھي سب كي سب ابوسفيان كي فتنہ گري كو روكنے كے لئے اسے بخش دي اور اس طرح وہ بھي اس پر راضي ھوگيا 112 اس كے علاوہ اس چيز ميں بھي اسے كاميابي حاصل ھوئي كہ حكومت ميں كوئي عھدہ اپنے بيٹے معاويہ كے لئے مخصوص كرسكے113 ،اس وضاحت كے بعد اس چيز كو اچھي طرح سمجھا جاسكتا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے ابوسفيان كي پيش كش كو ٹھكرا كر اسے اپنے سے كيوں دور كيا اور فرمايا: خدا كي قسم تو اس بات سے فقط فتنہ پروري چاھتا ھے تو ھميشہ اسلام كا دشمن رھا ھے مجھے تيري ھمدردي اور خير خواھي كي ضرورت نھيں ھے! 114 حضرت علي (ع) كے خطبات سے اس بات كو بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ ابوسفيان كا اصل مقصد شر اور فساد پھيلانا تھا اور قبيلہ پرستي تعصب جيسا كوئي مسئلہ نہ تھا۔

اس واقعہ سے متعلق اكثر روايات سے يہ چيز سمجھ ميں آتي ھے كہ بني اميہ ميں فقط ابوسفيان، ابوبكر كي بيعت كا مخالف تھا جيسا كہ جب وہ مسجد ميں بني اميہ كے اجتماع كے درميان گيا اور انھيں ابوبكر كے خلاف قيام كي دعوت دي تو كسي نے بھي اس كا مثبت جواب نہ ديا، 115 اس سے صاف سمجھ ميں آتا ھے كہ يہ مخالفت اور قيام كي دعوت محض ايك دكھاوا تھا اس لئے كہ بني اميہ كے درميان ابوسفيان كي حيثيت اور ليڈري غير قابل انكار چيز ھے اور يہ ھرگز ممكن نہ تھا كہ بني اميہ ابوسفيان كے قول پر كان نہ دھريں اور اسے منفي جواب ديديں۔ اس چيز كو حضرت علي عليہ السلام كے ابوسفيان كي لشكر جمع كرنے والي گفتگو سے سمجھا جاسكتا ھے اس لئے كہ اس نے اس گفتگو ميں بڑے اعتماد كے ساتھ مدينہ كو لشكروں سے بھر دينے كو كھا تھا 116 اور حضرت علي عليہ السلام كے اس جواب سے بھي يہ چيز سمجھي جاسكتي ھے كہ ابوسفيان اس پيش كش ميں كس حد تك سنجيدہ تھا۔

بني اميہ اس چيز كو جانتے تھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے انتقال كے فوراً بعد ان كے لئے ميدان اس قدر ھموار نھيں ھوگا كہ وہ حكومت اپنے ھاتھ ميں لے ليں، لھٰذا اس فتنہ پروري سے ان كا مقصد اپنے لئے ميدان ھموار كرنا اور حكومت كے حصول كے سلسلے ميں پھلا قدم اٹھانا تھا وہ در حقيقت ابوبكر كي خلافت كو قريش سے بني اميہ كي طرف خلافت كے منتقل ھونے كے لئے ايك اھم پل سمجھتے تھے اسي لئے اس سے موافق تھے اور اس كي مدد تك كرتے تھے اگر چہ تاريخي تحريفات كي وجہ سے ان كے تعاون كي فھرست بيان كرنا ايك مشكل كام ھے ليكن بعض قرائن اس چيز كي نشاندھي كرتے ھيں اور جيسے پيغمبر (ص) كے انتقال كے دن عمر، يقين كے ساتھ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے انتقال كا انكار كر رھے تھے اور جيسے ھي ابوبكر پھونچے تو عمر نے ابوبكر كي زبان سے قرآن كي آيت سن كر پيغمبر (ص) كے انتقال كا يقين كرليا 117 يہ بات واضح تھي كہ اس كام سے عمر كا مقصد فقط ابوبكر كے پھنچنے تك حالات كو قابو ميں ركھنا تھا اور قابل غور بات تو يہ ھے كہ فقط عمر ھي پيغمبر (ص) كے انتقال كے منكر نہ تھے بلكہ عثمان بھي پيغمبر (ص) كا انتقال نہ ھونے كے دعويدار تھے اور كہہ رھے تھے كہ وہ مرے نھيں ھيں بلكہ عيسيٰ كي طرح آسمان پر چلے گئے ھيں 118 يہ تمام چيزيں ان كي آپسي ساز باز اور اتفاق رائے كي نشاندھي كرتي ھيں۔

خلاصۂ كلام يہ كہ پيغمبر اسلام (ص) كي وفات ÙƒÛ’ بعد حكومت كو اپنے ھاتھوں ميں لينے كي كوششيں اس زمانے ÙƒÛ’ آگاہ افراد سے ھرگز پوشيدہ نہ تھيں جيسا كہ انصار اس بات كو بخوبي جانتے تھے اسي لئے حباب بن منزر Ù†Û’ سقيفہ ميں ابوبكر سے خطاب كرتے ھوئے اس بات كا اظھار كيا تھا كہ ھميں آپ لوگوں سے كوئي ڈر Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Û’ ليكن ڈر اس بات كا Ú¾Û’ كہ ÙƒÚ¾ÙŠÚº ايسا نہ Ú¾Ùˆ كہ آپ لوگوں ÙƒÛ’ بعد وہ لوگ برسر اقتدار آجائيں كہ جن ÙƒÛ’ باپ دادا اور بھائيوں كو Ú¾Ù… Ù†Û’ اپنے ھاتھوں سے قتل كيا Ú¾Û’ 119 اور يقيناً وہ لائق تحسين Ú¾Û’ كہ اس Ù†Û’ اچھي طرح حالات كا رخ ديكھ كر صحيح پيشن گوئي كي تھى، البتہ بني اميہ ÙƒÛ’ علاوہ بني زھرہ بھي حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اور وہ لوگ سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف پر اتفاق كئے ھوئے تھے 120 Û” اسي طرح كہ ايك روايت ÙƒÛ’ مطابق مغيرہ بن شعبہ وہ شخص تھا جس Ù†Û’ ابوبكر اور عمر كو سقيفہ ميں جانے ÙƒÛ’ لئے ابھارا تھا 121Û”

سوم: حكومت حاصل كرنے كے لئے بعض مھاجرين كي كوششيں۔

ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ وہ نماياں افراد تھے جو پيغمبر (ص) كي وفات كے بعد حكومت كے حصول اور حضرت علي (ع) كو مسند خلافت سے ھٹا كر حالات پر قابو پانے ميں سب سے زيادہ كوشاں دكھائي ديتے تھے جس كے بھت سے شواھد موجود ھيں مگر ھم يھاں فقط چند مثالوں پر ھي اكتفا كر رھے ھيں۔

1۔ سقيفہ كے خطبہ ميں عمر كا كھنا تھا كہ "واجتمع المھاجرون الي ابي بكر" يعني مھاجرين ابوبكر كي خلافت پر متفق تھے، اس كے بعد ان كا كھنا تھا كہ ميں نے ابوبكر سے كھا كہ آؤ انصار كے پاس چلتے ھيں جو سقيفہ ميں جمع ھيں ان عبارات پر غور كرنے سے حكومت حاصل كرنے كي ان لوگوں كي كوششوں كا بخوبي اندازہ لگايا جاسكتا ھے اس لئے كہ اگر مھاجرين كا ابوبكر پر اتفاق اور ان كے لئے ان كي رضايت كو محض ايك دعويٰ نہ سمجھا جائے تو سب كي موافقت اور رضايت حاصل كرنے كے لئے كافي مذاكرات اور مسلسل رابطوں كي ضرورت ھے لھٰذا ايسا ھر گز نھيں ھوسكتا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے انتقال كے فوراً بعد سب كے سب ابوبكر پر اتفاق رائے كرليں اس لئے كہ سقيفہ سے پھلے ظاھراً كوئي جلسہ تشكيل نھيں پايا تھا كہ جس سے تمام مھاجرين كے نظريات كا پتہ چل جاتا كہ وہ كيا چاھتے ھيں اس كا مطلب يہ ھوا كہ يہ لوگ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات سے پھلے ھي ايك ايك مھاجر سے ملتے اور اسے اپني طرف كر ليتے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next