سقيفه كے حقائق



ھماي نظر ميں جو كچھ عباس ديكھ رھے تھے حضرت علي عليہ السلام اسے بخوبي جانتے تھے ليكن در اصل بات يہ تھي كہ اگر لوگ پيغمبر (ص) كي وصيت پر عمل كرنا چاھتے تو پھر پوشيدہ طور پر كسي بيعت كي ضرورت باقي نھيں رہ جاتي يا آج كي اصطلاح حكومت كا تختہ پلٹنے كي ضرورت نھيں تھى، اگر لوگ حضرت علي عليہ السلام كي قدر و منزلت كو نھيں جانتے اور آپ كي حكومت نھيں چاھتے تو پھر اس كوشش اور محنت كي كوئي معنوي قدر و قيمت نہ ھوتي اور اس كا كوئي خاص فائدہ بھي نہ تھا، اس لئے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو جو كچھ وصيت كرنا تھي وہ كرچكے تھے اب يہ ذمہ داري مسلمانوں كي تھي كہ وہ خدا اور اس كے رسول (ص) پر اعتماد و يقين كر كے ان كي اطاعت كرتے اور يہ بات حضرت علي عليہ السلام كے ان جملوں سے بخوبي سمجھي جاسكتي ھے جو آپ نے عثمان كے قتل كے بعد جب لوگ آپ كے پاس بيعت كرنے كے لئے آئے تو آپ نے تقرير كے دوران ادا كئے۔ دور خلفاء ميں حضرت علي عليہ السلام كا سكوت ھرگز اس بات پر دليل نھيں كہ آپ ان كے پابند، ان كے ھم خيال اور انھيں اس كا حقدار سمجھتے تھے بلكہ بارھا اپني مخالفت كو واضح طور پر بيان كرتے رھے اور اس امر ميں ھرگز كوتاھي سے كام نھيں ليا اور اگر آپ كے موافقين كي تعداد زيادہ ھوتي تو يقيني بات ھے كہ آپ حكومت سے دستبردار نہ ھوتے مگر جو لوگ آپ كے ساتھ تھے ان كي تعداد اتني كم تھي كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد حالات اس بات كي اجازت نھيں ديتے تھے كہ آپ مسلحانہ انداز ميں قيام كريں اور يھي وہ سيرت اور طريقہ كار ھے جس كا مشاھدہ اور دوسرے معصومين (ع) كي زندگي ميں بھي كيا جاسكتا ھے البتہ يہ ايك طويل بحث ھے كہ جس كا يھاں موقع نھيں ھے۔

انصار كي چارہ جوئى

گذشتہ بيان كي روشني ميں يہ بات كھل كر سامنے آگئي كہ انصار سقيفۂ بني ساعدہ ميں اس لئے جمع ھوئے تھے كہ رونما ھونے والے يہ تمام حوادث كسي سے پوشيدہ نہ تھے كہ كوئي ان سے بے خبر ھوتا، انصار اور مھاجرين كا ھر فرد يہ جانتا تھا كہ مدينہ ميں جلد ھي تبديلياں آنے والي ھيں اور حادثات رونما ھونے والے ھيں ليكن كوئي مكمل طور سے اس بات كو نھيں جانتا تھا كہ آخر كيا ھونے والا ھے؟ اسي لئے مختلف گروہ حكومت كے حصول كے لئے مكمل كوشاں تھے۔

لھٰذا يہ مسئلہ واضح طور پر سمجھا جاسكتا ھے كہ رسول اكرم (ص) كي وفات كے بعد مدينہ كے حالات اس قابل نہ تھے كہ جس ميں حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور حكومت كا قيام عمل ميں آتا يھاں تك كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے چچا عباس بن عبدالمطلب بھي اس سلسلے ميں يہ سوال كر رھے تھے كہ كيا لوگ پيغمبر (ص) كے بعد حضرت علي عليہ السلام كي خلافت كو قبول كر ليں گے يا نھيں؟ يہ بات قابل غور ھے كہ عباس كا سوال اس بات كے بارے ميں نھيں تھا كہ حكومت كا لائق اور سزاوار كون ھے؟ اس لئے كہ عباس، حضرت علي عليہ السلام سے زيادہ كسي كو اس امر كے لائق نھيں سمجھتے تھے اور ھميشہ حضرت علي عليہ السلام كو بيعت كي پيشكش كرتے تھے 158، جتنے بھي مآخذ و منابع عباس بن عبدالمطلب كے اس سوال كا ذكر كرتے ھيں ان ميں يہ چيز بيان نھيں ھوئي كہ عباس نے پوچھا ھو كہ پيغمبر (ص) كے بعد ان كي جانشيني كا كون مستحق ھے؟ بلكہ عباس كا سوال يہ ھے كہ آخر پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد كيا ھوگا؟ كيا حكومت بني ھاشم ميں باقي رھے گي يا نھيں۔ شيخ مفيد نے اسے بھترين انداز ميں بيان كيا ھے كہ عباس نے پيغمبر (ص) سے پوچھا وان يكن ھذا الأمر فينا مستقرّاً بعدك فبشّرنا 159 يعني اگر ولايت و حكومت آپ كے چلے جانے كے بعد ھمارے درميان باقي رھے گي تو ھميں اس كي بشارت ديجئے۔ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جواب ميں فرمايا كہ آپ لوگ ميرے بعد مستضعفين ميں سے ھوں گے، يھاں سوال يہ نھيں كہ يہ حق كس كا ھے بلكہ بحث اس پر ھے كہ يہ حق جو حضرت علي عليہ السلام كا ھے كيا انھيں مل بھي جائے گا يا نھيں؟ عباس واقعہ غدير سے بے خبر نہ تھے مگر اس كے بعد كے حالات و واقعات كو ديكھتے ھوئے اس قسم كے سوالات كر رھے تھے۔

انصار كہ جنھوں نے قريش كے خلاف بڑھ چڑھ كر جنگوں ميں حصہ ليا تھا اس بات سے خوفزدہ تھے كہ اگر پيغمبر (ص) كے بعد حضرت علي عليہ السلام مسند خلافت پر نہ بيٹھے كہ جس پر بھت سے شواھد و قرائن دلالت كر رھے ھيں، تو كيا ھوگا؟ انصار كو زيادہ تر خوف اس بات كا تھا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ بني اميہ كہ جو حكومت كے حصول كے لئے بھرپور كوشش كر رھے ھيں برسر اقتدار آجائيں تو ايسي صورت ميں انصار كي حالت بدتر ھوجائے گي اور وہ ھميشہ بني اميہ كے انتقام كا نشانہ بنے رھيں گے۔

ايسي صورت ميں انصار كے لئے ضروري تھا كہ آئندہ كے لئے كوئي چارہ جوئي كريں كيوں كہ مدينہ ان كا اپنا وطن تھا اور مھاجرين دوسري جگہ سے ھجرت كر كے ان كے وطن ميں آئے تھے لھذا اس اعتبار سے وہ اپنے آپ كو حكومت كا زيادہ حقدار سمجھ رھے تھے اسي لئے وہ پيغمبر (ص) كي وفات كے فوراً بعد سقيفہ ميں جمع ھوگئے كہ آئندہ كا لائحہ عمل كيا ھوگا اگر كوئي حادثہ پيش آگيا تو انھيں كيا كرنا ھے۔

اس وقت كے تمام قرائن اور شواھد كي روشني ميں جب انھوں نے يہ ديكھا كہ حضرت علي عليہ السلام كو خلافت و حكومت ملنا ممكن نھيں ھے تو بھتر يھي سمجھا كہ اپنے درميان سے ھي كسي ايك كو اس امر كے لئے منتخب كرليں، لھٰذا سعد بن عبادہ كو بلايا كہ وہ اس اجتماع ميں شريك ھوں تاكہ ان كي بيعت كي جائے كيونكہ جب نوبت يھاں تك پھنچ گئي كہ حضرت علي عليہ السلام كو خلافت ملنے والي نھيں ھے تو پھر ان سے زيادہ اس امر كا سزاوار كون ھوسكتا ھے ھماري اس بات كي تائيد كے لئے بھت سے شواھد موجود ھيں جن كي تفصيل كچھ اس طرح ھے۔

1۔ انصار كو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت پر كسي قسم كا كوئي اعتراض نہ تھا بلكہ وہ مكمل طور سے اس پر راضي تھے۔ جيسا كہ طبري 160 اور ابن اثير 161 نے نقل كيا ھے كہ سب كے سب يا بعض انصار نے سقيفہ ميں ابوبكر اور عمر كے سامنے يہ بات كھي تھي كہ ھم حضرت علي عليہ السلام كے علاوہ كسي اور كي بيعت نہ كريں گے اور اسي طرح يعقوبي نے بھي اس بارے ميں كھا ھے كہ "وكان المھاجرون والانصار لا يشكون في على" 162 "انصار و مھاجرين كو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت پر كوئي اعتراض نہ تھا" اور دوسري جگہ نقل كيا ھے كہ عبد الرحمٰن بن عوف نے انصار سے كھا كہ كيا تمھارے درميان ابوبكر، عمر اور حضرت علي عليہ السلام جيسے افراد موجود نھيں ھيں تو انصار ميں سے ايك نے كھا كہ ھم ان افراد كي فضيلت كے منكر نھيں ھيں اس لئے كہ ان كے درميان ايك ايسا شخص موجود ھے كہ اگر وہ اس امر خلافت كو طلب كرے تو ھم ميں سے كوئي بھي اس كي مخالفت نھيں كريگا يعني علي بن ابي طالب عليہ السلام 163 اس كا مطلب يہ ھے كہ انصار غدير خم كے واقعہ سے بے خبر نہ تھے اور ھرگز حضرت علي (ع) كي خلافت كے منكر نہ تھے اور سقيفہ ميں ان كا جمع ھونا ھرگز حضرت علي عليہ السلام كو خلافت سے دور كرنے كے لئے نہ تھا ليكن وہ يہ بھي ديكھ رھے تھے كہ كچھ لوگ حكومت حاصل كرنے كے لئے بے انتھا كوشش كر رھے ھيں جب كہ حضرت علي عليہ السلام كي طرف سے حكومت كے لئے كسي بھي قسم كي سياسي اور سماجي كوششيں ديكھنے ميں نھيں آرھي تھيں لھٰذا انھيں يقين ھوگيا تھا كہ ايسي صورت حال كے پيش نظر حضرت علي عليہ السلام كسي بھي طرح خلافت پر نھيں آسكتے۔ بلكہ بھتر ھوگا كہ يوں كھا جائے كہ بعض افراد كسي بھي صورت ميں حضرت علي (ع) كو خلافت تك نھيں پھنچنے ديں گے۔ لھٰذا انصار كے لئے ضروري تھا كہ وہ اپنے لئے كوئي چارہ جوئي كريں گويا وہ مستقل طور پر اپنے لئے آئندہ كا لائحہ عمل تيار كرنا چاھتے تھے۔

2۔ انصار كا سقيفہ ميں مھاجرين كو يہ پيشكش كرنا كہ ايك امير ھمارا اور ايك امير تمھارا اس بات كي واضح دليل ھے كہ انصار فقط يہ چاھتے تھے كہ وہ بھي حكومت ميں شريك رھيں اور اس طرح وہ قريش كے احتمالي خطرات سے محفوظ رھنا چاھتے تھے، (گويا ھر صورت ميں حكومت ميں حصہ دار بن كر اپنے آپ كو محفوظ ركھنا چاھتے تھے)۔

3۔ سقيفہ ميں انصار كي گفتگو ان كے اھداف كو واضح كرتي ھے اس كے علاوہ قاسم بن محمد بن ابوبكر كي روايت بھي انصار كے سقيفہ ميں اجتماع كے مقصد كي طرف اشارہ كرتي ھے اور وہ يہ ھے كہ (ولكنا نخاف اَنۡ يليہ اقوام قَتَلنا آبائھم واِخوتھم) 164 ليكن ھميں ڈر اس بات كا ھے كہ كھيں ايسا نہ ھو ان كے بعد وہ لوگ بر سر اقتدار آجائيں كہ جن كے باپ اور بھائيوں كو ھم نے قتل كيا تھا، جيسا كہ دينوري اور جوھري نے نقل كيا ھے كہ انصار نے كھا ھے كہ ھميں ڈر اس بات كا ھے كہ كل كھيں وہ لوگ بر سر اقتدار نہ آجائيں كيونكہ نہ وہ ھم ميں سے ھيں اور نہ تم ميں سے 165۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next