سقيفه كے حقائق



ليكن ياقوت حموي كا كھنا ھے "الاخبارى، النسّابہ، العلامہ، كان عالماً بالنسب واخبار العرب و ايامھا و وقائعھا و مثالبھا…" 182 اخبارى، نسابہ، علامہ اور عربوں كے شجرۂ نسب اور ان كے مختلف ادوار كے حالات و واقعات اور عيوب كے عالم تھے، يہ پوري عبارت ان كي علمي عظمت پر دلالت كرتي ھے لھٰذا ھمارے پاس كوئي ايسي خاص دليل نھيں ھے كہ جس كي بنا پر انھيں چھوڑ ديا جائے اسي لئے ھم انھيں قابل اعتماد سمجھتے ھيں۔

ج۔ البتہ يہ دعويٰ كہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابي عمرہ نے اس زمانہ كو درك نھيں كيا لھٰذا وہ اس واقعہ كا عيني شاھد نھيں ھوسكتا بالكل صحيح ھے اور اس طرح يہ روايت منقطع ھوكر رہ جائے گي ليكن يہ چيز كسي خاص مشكل كا سبب نھيں بنے گي اور اس اعتراض كے دو جواب ھيں، نقضي اور حلّي۔

نقضي جواب:

اول يہ كہ علماء كرام تاريخي واقعات كے متعلق روايات كي سند كے بارے ميں كوئي خاص توجہ نھيں ديتے ھيں البتہ اس كا مطلب ھرگز يہ بھي نھيں كہ جس خبر كو جہاں سے سنا اسے قبول كركے نقل كرديا بلكہ اس كا مطلب يہ ھے كہ جس طرح فقھي روايات كي سند پر غور كيا جاتا ھے اس طرح كي توجہ يھاں نھيں كي جاتي بلكہ اگر كوئي خبر كسي ايسے عالم سے سني جائے جو مشھور و معروف اور قابل اعتماد ھو اور عقلاء اس پر اطمينان كا اظھار كريں تو اسے كافي سمجھتے ھيں اور سند كے بجائے اس كے مضمون پر غور كرتے ھيں۔

دوسرے يہ كہ اگر پوري تاريخ كو سندي اعتبار سے ديكھا جائے تو شايد ھي تاريخ ميں كوئي چيز باقي رھے۔ اس لئے كہ ايسي صورت ميں اكثر روايات كو ختم كرديا جائے اور فقط ان صحيح روايات پر اكتفا كي جائے جو احاديث كي كتابوں ميں موجود ھيں تو ايسے ميں گزشتہ واقعات كي صحيح تصوير پيش نھيں كي جاسكتي۔

تيسرے قابل توجہ بات يہ ھے كہ يھي احاديث كي كتابيں جب تاريخي واقعات كو بيان كرتي ھيں تو مرسل، منقطع و ۔ ۔ روايات سے پُر دكھائي ديتي ھيں، ھم يھاں بعنوان مثال فقط ان چند روايات كا تذكرہ كرتے ھيں جو واقعۂ سقيفہ كے بارے ميں ھيں اور قابل ذكر بات يہ ھے كہ معترض نے ابو مخنف كي روايت كے لئے جن روايات كا سھارا ليا ھے خود ان كا تعلق بھي "مرسلہ روايات" سے ھے۔

جو روايت مسند احمد بن حنبل 183 ميں حميد بن عبد الرحمٰن سے نقل ھوئي ھے يہ روايت ابوبكر اور عمر كے سقيفہ ميں جانے نيز ابوبكر كي سقيفہ ميں تقرير كہ جس ميں انھوں نے انصار كي فضيلت اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اس حديث كو نقل كيا ھے جس ميں آپ نے فرمايا: "حكومت قريش ميں ھوني چاھيے" اس كے بعد سعد بن عبادہ كي تصديق اور بيعت كرنے كو بيان كرتي ھے۔

معترض نے بارھا ابو مخنف كے مطالب كو رد كرنے كے لئے اس روايت سے استفادہ كيا ھے جب كہ يہ بھي ايك "مرسلہ روايت" ھے، جيسا كہ ابن تيميہ، جو اُن كے نزديك شيخ الاسلام ھے "منھاج السنہ" ميں اس روايت كے بارے ميں كھتا ھے "ھذا مرسل حسن" 184 يہ روايت مرسل اور حسن ھے۔

اور عجيب بات تو يہ ھے كہ معترض نے حاشيہ پر خود ابن تيميہ كا يہ جملہ نقل كيا ھے 185 ليكن اپنے آپ سے يہ سوال نھيں كيا كہ آخر ميں خود اس روايت كے مرسل ھونے كے باوجود كيوں اتنے وثوق سے اس پر عمل كر رھا ھوں۔

1۔ وہ روايت جو ابن ابي شيبہ 186 نے ابو اسامہ كے توسط سے بني زريق كے ايك آدمي سے واقعہ سقيفہ كے بارے ميں نقل كي ھے اور يہ روايت چونكہ بني زريق كے نامعلوم شخص سے نقل ھوئي ھے لھٰذا يہ سندي ابھام سے دوچار ھے اس كے باوجود معترض نے اس روايت پر بھي اعتبار كيا ھے 187۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next