سقيفه كے حقائق



الف۔ يہ دعويٰ كہ اس روايت كو تنھا ابو مخنف نے نقل كيا ھے۔

يہ بات صحيح نھيں ھے بلكہ يہ معترض كي كم علمي اور ضروري تحقيق نہ كرنے كي دليل ھے اس لئے كہ ابو مخنف كي روايت كا مضمون يا وھي مضمون كچھ اضافہ كے ساتھ دوسرے مورخين نے بھي نقل كيا ھے جس كي تفصيل كچھ اس طرح ھے۔

1۔ دينوري نے اپني كتاب "الامامة والسياسة" ميں يہ روايت جس سند كے ساتھ نقل كي وہ يہ ھے ۔ حدثنا ابن عُفير، عن أبي عون، عن عبداللہ بن عبدالرحمان الانصاري رضي اللہ عنہ… 176

2۔ دوسري سند جسے جوھري نے يوں نقل كيا۔ أخبرني احمد بن اسحاق قال: حدثنا احمد بن سيار، قال: حدثنا سعيد بن كثير بن عفير الانصارى: ان النبي (ص) … 177

3۔ ابن اثير سلسلہ سند كي طرف اشارہ كئے بغير اعتماد كے ساتھ كھتا ھے، و قال ابو عمر الانصارى: لمّا قبض النبي (ص) 178

خلاصہ يہ كہ يہ تين يا چار سنديں ايك ھي روايت كو بيان كرتي ھيں يھاں تك كہ ان ميں بہت سے الفاظ اور جملے بھي ايك جيسے ھيں، ان چار سندوں ميں سے صرف ايك سلسلۂ سند ميں ابو مخنف ھيں۔

ب۔ دوسري بات جو اعتراض كے عنوان سے پيش كي گئي وہ يہ ھے كہ ابو مخنف اور ھشام بن كلبي دونوں ضعيف ھيں۔

ابو مخنف اور ان كي روايت پر اعتماد كے بارے ميں حصہ اول ميں تفصيل كے ساتھ بحث كي جاچكي ھے جس ميں بيان كيا گيا كہ شيعہ علماء رجال نے ان پر مكمل اعتماد كيا ھے اور اھل سنت كے مورخين نے بھي معمولاً ان پر اعتماد كيا ھے اور بعض نے تو فقط ان كي روايت ھي كو نقل كرنے پر اكتفا كي ھے كيا يہ چيز ان كے قابل اعتماد ھونے كي نشاندھي نھيں كرتي ھے؟

اور ھشام بن كلبي بھي شيعہ علماء رجال كے نزديك ايك معروف اور قابل اعتماد شخصيت ھيں جيسا كہ نجاشي ان كے بارے ميں كھتے ھيں كہ وہ فضل و علم كے حوالے سے مشھور اور امام صادق عليہ السلام كے نزديك ترين اصحاب ميں سے تھے 179۔

اھل سنت كے علماء نے فقط انھيں شيعہ ھونے كي وجہ سے "متروك" جانا ھے اور ظاھراً شيعہ ھونے كے علاوہ كوئي دوسري وجہ ضعيف ھونے كي ذكر نھيں كى، جيسا كہ ابن حبان نے ان كے بارے ميں كھا ھے كہ "وكان غالياً في التشيع" 180 اور ذھبي كا كھنا ھے كہ "وتركوہ كأبيہ و كانا رافضين" 181۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next