سقيفه كے حقائق



2۔ وہ روايت جو "الطبقات الكبريٰ" 188 ميں قاسم بن محمد بن ابي بكر صديق تميمي سے نقل ھوئي ھے يہ روايت بھي مرسل ھونے كے باوجود معترض كے لئے قابل استناد ھے 189

يہ مرسلہ روايات كي چند مثاليں تھيں تاريخ كے دسيوں سيكڑوں ابواب ميں سے ايك خاص باب كے بارے ميں اور يھي روايات ان لوگوں كي نظر ميں قابل اعتماد و استناد ھيں جو تاريخ كي اسناد كے بارے ميں مختلف شكوك و شبھات پيدا كرتے ھيں۔

چوتھے يہ كہ خود معترض نے اپني كتاب كے مقدمہ 190 ميں يہ بات كھي ھے كہ ايك مورخ كو فقط خبر پر نظر نھيں كرني چاھيے بلكہ اس كے مختلف پھلوؤں پر بھي غور كرنا چاھيے، لھٰذا كسي خبر كے بارے ميں اس كي صحت اور ضعف كا فيصلہ كرنا اس كے مختلف پھلوؤں كے مطالعہ كے بعد ھي صحيح ھے اس لئے كہ كبھي اس كا نتيجہ مسلّم حقائق كے انكار كا موجب بنتا ھے اور اپنے قول كي تائيد كے سلسلے ميں امام مالك كے اس قول كو بعنوان شاھد پيش كرتا ھے كہ "صحابہ كي بد گوئي نبي (ص) كي بدگوئي كے مترادف ھے"۔

اس بنا پر اگر كوئي خبر كتني ھي صحيح السند كيوں نہ ھو ليكن اگر وہ ايسے مطالب كو بيان كرے جو قابل قبول نہ ھوں مثال كے طور پر كسي صحابي كے عيوب و نقائص كو بيان كرتي ھو تو يہ روايت ان كے نزديك ضعيف ھے، لھٰذا سند كي تحقيق كرنے سے پھلے اس كے مطالب پر نظر كي جائے كہ كھيں كسي كےمسلم نظريات سے تعارض نہ ركھتي ھو تو اگر اس خبر كے مطالب قابل قبول ھيں تو سند كو بھي صحيح كرليا جائے گا!!

ايسي صورت ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام كو بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ جھاں اس نے كھا ھے كہ يہ حديث مرسل و حسن ھے، يعني مرسل بھي ھے اور حسن بھى، اور اس طرح ابن عدي كے كلام كو ابو مخنف كے بارے ميں بھي بخوبي سمجھا جاسكتا ھے كہ ابن عدي كا كھنا ھے كہ ابو مخنف نے ايسي روايات كو نقل كيا ھے كہ دل نھيں چاھتا كہ انھيں نقل كيا جائے 191 در حقيقت ابو مخنف كے ضعيف ھونے كا سبب ان كي روايات كا متن اور مضمون ھے جو ان كے مفروضہ نظريات كے خلاف ھے۔

لھٰذا تاريخ كي سند ميں غور و فكر اور شك و شبہ كے دعويٰ كي نہ كوئي حقيقت ھے اور نہ كوئي گنجائش ھے بلكہ ايسا محسوس ھوتا ھے كہ يہ دعويدار اس قسم كي باتوں سے اپنے مخالفين كے وجود سے ميدان كو صاف كرنا چاھتے ھيں، ليكن جب بات اپني اور اپنے عقائد كے اثبات كي آجاتي ھے تو پھر روايت كا متن اور اس كے مطالب ھي سب كچھ ھوتے ھيں (اور پھر سند كي صحت كا اس سے كوئي تعلق نھيں ھوتا)۔

حلّي جواب:

ممكن ھے كہ سلسلۂ اسناد ميں سے كلمۂ "عن" حذف ھوگيا ھو يعني در حقيقت اس طرح ھو۔ عبداللہ بن عبدالرحمن [ عن ابيہ] عن ابي عمرة الانصاري يہ محض ايك ضعيف احتمال نھيں ھے بلكہ اس كي بھت سي مثاليں موجود ھيں، اس كے علاوہ ھم اس مطلب كي تائيد كے لئے شواھد اور قرائن بھي ركھتے ھيں اور وہ يہ كہ ابن اثير كھتا ھے "قال ابو عمرة الانصارى" 192 يہ بات اس چيز كي طرف اشارہ كرتي ھے كہ جو نسخہ اس كے پاس موجود تھا اس ميں اس روايت كو ابو عمرة انصاري سے نقل كيا گيا ھے نہ عبداللہ بن عبد الرحمٰن سے اور اگر بالفرض اس احتمال كو قبول نہ كريں تو يہ بات واضح ھے كہ جب عبداللہ بن عبدالرحمٰن خود اس واقعہ كا شاھد عيني نھيں ھے تو يقيناً اس نے يہ خبر اپنے والد اور اس كے والد نے ابي عمرة انصاري (اس كے دادا) سے نقل كي ھے، اور عزيز و اقارب ميں سلسلۂ سند كا حذف كر دينا اس دور ميں ايك معمول تھا۔

اس كے علاوہ ان تينوں (ابو مخنف، جوھري اور دينوري) كي نقل شدہ روايات كے سلسلۂ اسناد ميں جو معروف افراد اور علماء موجود ھيں يہ خود روايات كے متن اور اس كے صحيح ھونے پر دليل ھيں۔ خاص طور پر وہ روايت كہ جسے جوھري نے نقل كيا ھے اس ميں ايسے اشخاص موجود ھيں كہ جن كے بارے ميں اھل سنت مكمل اعتماد و اطمينان كا اظھار كرتے ھيں، جيسے احمد بن سياركو ابن ابي حاتم اور دار قطنى نے قابل اعتماد كھا ھے 193، نيز سعد بن كثير كو ابن ابي حاتم نے صدوق (بھت زيادہ سچ بولنے والا) كھا ھے اور وہ كھتا ھے كہ وہ دوسروں كي كتابوں سے نقل كرتا تھا 194، اور انھيں كے بارے ميں ذھبي كا كھنا ھے كہ "كان ثقة، اماماً، من بحور العلم" 195 وہ ثقہ، امام اور علم كے سمندروں ميں سے تھے۔ يقيني طور پر اس قسم كے برجستہ اور قابل اعتماد افراد ھر خبر كو آساني سے نقل نھيں كرتے جس كا نتيجہ يہ نكلتا ھے كہ كسي بھي قسم كا كوئي اعتراض ابو مخنف كي روايت كي سند پر وارد نھيں ھوتا ھے۔

دوسرا اعتراض؛ سعد بن عبادہ كي تقرير كے تنھا راوي ابو مخنف ھيں



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next