سقيفه كے حقائق



اكثر علماء اھل سنت نے ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي اشارہ نہيں كيا يہاں تك كہ ابن قتيبہ اور ابن نديم نے شيعہ افراد كے لئے ايك الگ باب تحرير كيا ھے ليكن ابو مخنف كے نام كا وھاں ذكر نہ ھونا ان كے غير شيعہ ھونے كو ظاھر كرتا ھے 37 علماء اھل سنت ميں سے ابن ابي الحديد وہ ھے جو اس بات كا قائل ھے كہ ابو مخنف كا شمار محدثين ميں ھوتا ھے اور وہ امامت پر اعتقاد ركھتے تھے۔ ليكن ان كا شمار شيعہ راويوں ميں نہيں ھوتا 38 صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقيد كرنے كے بعد فرماتے ھيں كہ ابو مخنف كي روايت ان كے متعصب نہ ھونے كي وجہ سے قابل اعتماد ھے ليكن ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي رائے پيش نہيں كي جاسكتي 39۔

لھٰذا ان كے مذھب كے بارے ميں بحث كرنے كا كوئي خاص عملي فائدہ نہيں ھے ليكن اگر ابو مخنف كي روايات پر غور و فكر كيا جائے جو اكثر سقيفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفين، مقتل امام حسين عليہ السلام سے متعلق ھيں تو آپ اس نتيجہ پر پہنچيں گے كہ وہ شيعي افكار كے مالك تھے، البتہ ممكن ھے كہ ان كي روايات ميں بعض مطالب ايسے پائے جاتے ھوں جو كامل طور پر شيعہ عقيدہ كے ساتھ مطابقت نہ ركھتے ھوں ليكن ھميں چاھيے كہ ھم ابو مخنف كے دور زندگي كو بھي پيش نظر ركھيں كيونكہ بعض اوقات ائمہ معصومين عليھم السلام بھي تقيہ كي وجہ سے ايسے مطالب بيان كرتے تھے جو اھل سنت كے عقيدہ كے مطابق ھوا كرتے تھے اور يہ بات بھي قابل غور ھے كہ وہ ايك معتدل شخص تھے جس كي وجہ سے اھل سنت كي اكثر كتابوں ميں ان كي روايات كا مشاھدہ كيا جاسكتا ھے۔

بہر حال تاريخ ابو مخنف كي عظمت غير قابل انكار ھے اور شيعہ و سني تمام مورخين نے ان سے كافي استفادہ كيا ھے اور چونكہ تمام شيعہ علماء نے انہيں ثقہ جانا ھے اور ان كي روايت پر اعتماد كا اظھار كيا ھے لھٰذا ان كي روايات كے مضامين پر غور و فكر كرنے سے صدر اسلام كے بہت سے اھم حالات و واقعات كي صحيح نشاندھي كي جاسكتي ھے۔

روايت ابي مخنف كي تحقيق كا طريقۂ كار

ابو مخنف كي روايات كے متن كے صحيح يا غلط ھونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ھے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخي روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادي حيثيت حاصل ھے لھٰذا دوسري روايات كے پيش نظر ان كي روايت كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوي جيسے ھشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركھتے ھيں اور اسي كے مرھون منت ھيں۔

كافي غور و فكر اور جستجو كے بعد اس كتاب ميں تحقيق كا جو طريقۂ كار اپنايا گيا ھے وہ كچھ اس طرح ھے كہ سب سے پھلے ابو مخنف كي اس روايت كے مضمون كو تاريخ كي اھم كتابوں سے، جو تاريخ طبرى سے پہلے اور اس كے بعد لكھي گئي ھيں نيز خود تاريخ طبرى كي متعدد روايات سے اس كا موازنہ كيا جائے اس كے بعد تمام قرائن و شواھد كي روشني ميں اس كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ كيا جائے، اس سلسلے ميں جن كتابوں سے استفادہ كيا گيا ھے وہ تاريخ كي معتبر، معروف و مشھور كتابيں ھيں جن ميں سے اكثر كتابيں اھل سنت كي ھيں۔ ھم آپ كي معلومات كے لئے ان كتابوں كے نام كے ساتھ ساتھ ان كا مختصر تعارف كرانا بھي ضروري سمجھتے ھيں 40

البتہ اس سے پہلے كہ تاريخ طبرى سے پہلے لكھي جانے والي كتابوں كا تعارف كرايا جائے سب سے پہلے خود تاريخ طبرى كا تعارف پيش كرتے ھيں كيونكہ يہ ھماري بحث كا محور ھے اور تاريخ كي ايك جامع كتاب ھے۔

تاريخ طبرى:

اس كتاب كا نام "تاريخ الامم والملوك يا تاريخ الرسل والملوك" ھے جس كے مولف ابو جعفر محمد بن جرير طبري ھيں وہ 224 ھجري ميں آمل طبرستان (مازندران: ايران كا ايك شہر) ميں پيدا ھوئے اور تحصيل علوم كے سلسلے ميں مقامات كا سفر كيا پھر بغداد ميں سكونت اختيار كرلي اور 310 ھجري ميں وھيں انتقال كر گئے 41۔

آپ كا شمار فقہ، تفسير اور تاريخ كے عظيم علماء ميں ھوتا تھا خاص طور پر آپ كي تاريخ اور تفسير كي كتابيں تو علماء اھل فن كي توجہ كا مركز رھي ھيں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next