فلسفۂ انتظار



حقیقت یہ ھے ك اس عقیدے كا تعلق انسانی فطرت سے ھے اور یہ ایك خالصِ اسلامی نظریہ ھے، دوسرے نظریات كی وجہ یہ ھے كہ جن لوگوں نے اس عقیدہ كے بارے میں اظھار رائے كیا ھے، اگر ان كو متعصب اور منافع پرست نہ كہا جاسكے تو یہ بات بہر حال مانی ھوئی ھے كہ ان لوگوں كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں بہت زیادہ محدود ھیں۔ ان محدود معلومات كی بنا پر یہ عقیدہ قائم كرلیا ھے كہ ھم نے سب كچھ سمجھ لیا ھے اور اپنے كو اس بات كا مستحق قرار دے لیتے ھیں كہ اسلامی مسائل كے بارے میں اظھار نظر كریں، اس كا نتیجہ وھی ھوتا ھے جسے آپ ملاحظہ فرما رھے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ محدود معلومات كی بنیادوں پر ایك آخری نظریہ قائم كرلینا كہاں كی عقلمندی ھے، آخری فیصلہ كرنے كا حق صرف اس كو ھے جو مسئلے كے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ھو۔

بعض لوگوں كا كہنا ھے كہ ھمیں اس بات سے كوئی سروكار نہیں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے، ھمارا سوال تو صرف یہ ھے كہ اس عقیدے كا فائدہ كیا ھے؟ اور اس كے اثرات كیا ھیں؟

ھم نے جو دیكھا وہ یہ ھے كہ جو لوگ اس عقیدے كو دل سے لگائے ھوئے ھیں وہ ھمیشہ رنج و محن كا شكار ھیں اور ان كی زندگیاں مصائب برداشت كرتے گذرتی ھیں ذمہ داریوں كو قبول كرنے سے بھاگتے ھیں، فساد كے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ھیں اور اس كی سعی و كوشش بھی نہیں كرتے كہ فساد ختم بھی ھوسكتا ھے ظلم كا ڈٹ كر مقابلہ بھی كیا جاسكتا ھے، ایسے عقیدے ركھنے والوں كو ایسی كوئی فكر ھی نہیں۔

اس عقیدے كی بنیاد جو بھی ھو مگر اس كے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ھیں یہ عقیدہ انسان كو اور زیادہ كاھل بنا دیتا ھے۔

اگر ایك دانش ور كسی مسئلے میں فیصلہ كرنا چاھتا ھے اور صحیح نظریہ قائم كرنا چاھتا ھے تو اس كے لئے ضروری ھے كہ وہ اس مسئلے كے اطراف و جوانب كا باقاعدہ مطالعہ كرے، اس كے بعد ھی كوئی صحیح نظریہ قائم ھوسكتا ھے۔

آئیے پہلے ھم خود اس مسئلے كے مختلف پہلوؤں پر غور كریں كہ اس عقیدے كی بنیاد كیا ھے؟ كیا واقعاً یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كے افكار كا نتیجہ ھے؟ یا اس كی بنیاد اقتصادیات پر ھے؟ یا پھر اس كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے؟ اس عقیدے كے اثرات مفید ھیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی بنیاد فطرت پر نہیں ھے بلكہ انسان كے افكار پریشاں كا نتیجہ ھے اس كے باوجود اس عقیدے كی اصل و اساس انسانی فطرت ھے، اس نظریے كی تعمیر فطرت كی بنیادوں پر ھوئی ھے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تك پہونچتا ھے۔ ایك اس كی اپنی فطرت ھے اور دوسرے اس كی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ھی انسان كو اس نظریے كی دعوت دیتے ھیں۔

انسان فطری طور پر كمال كا خواھاں ھے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے كہ وہ جن چیزوں كو نہیں جانتا ان كے بارے میں معلومات حاصل كرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں كو پسند كرتا ھے اور نیكی كو پسند كرتا ھے۔

بالكل اسی طرح سے انسان میں كمال حاصل كرنے كا جذبہ بھی پایا جاتا ھے۔ یہ وہ جذبہ ھے جو زندگی كے تمام شعبوں پر حاوی ھے، اسی جذبے كے تحت انسان اس بات كی كوشش كرتا ھے كہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل كرسكے كیونكہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل كرے گا اتنا ھی زیادہ اس میں كمال نمایاں ھوگا۔ اسی جذبے كے تحت اس كی یہ خواھش ھوتی ھے كہ لوگوں كے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیكی كرے، انسان فطری طور پر نیك طینت اور نیك اشخاص كو پسند كرتا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next