فلسفۂ انتظار



اگر میں خود ھی گناھگار، بدكار اور بداخلاق ھوں تو كیونكر ایسے انقلاب كی آرزو

كرسكتا ھوں جس میں گناھگاروں كے لئے كوئی خاص گنجائش نہ ھو۔

وہ فوج جو آمادۂ جنگ ھے كیونكر اس كے سپاھی غافل اور بے پروا ھوسكتے ھیں، فوج ھمیشہ اس فكر میں رھتی ھے كہ معمولی سے معمولی كمزوری كو جلد از جلد دور كیا جائے اور ھماری فوج میں كوئی بھی ضعف باقی نہ رھے اور جو ضعف ھیں ان كی فوراً اصلاح كرلی جائے۔

انسان كو جس چیز كا انتظار ھوتا ھے اسی اعتبار سے وہ خود كو آمادۂ استقبال كرتا ھے۔

اگر كسی مسافر كے آنے كا انتظار ھے تو ایك قسم كی تیاری ھوگی، اگر بہت ھی قریبی، اور جگری دوست آرھا ھے تو دوسرے قسم كی تیاریاں ھوں گی۔ اور اگر كسی طالب علم كو اپنے امتحان كا انتظار ھے تو اب اس كی تیاریاں ایك خاص قسم كی ھوں گی، اگر صحیح معنوں میں اسے امتحان كا انتظار ھے، ایسا ھرگز نہیں ھے جسے امتحان كا انتظار ھو وہ گھر كی صفائی اور اس كے نظم و ضبط میں منہمك ھو اور جسے ایك مسافر كا انتظار ھو وہ اپنی كاپی، كتاب كی اصلاح اور ترتیب میں مصروف و مشغول ھو، اب دیكھنا یہ ھے كہ ھم كس كا انتظار كر رھے ھیں اور كس انقلاب كی آس لگائے ھیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین كے كسی خطے سے مخصوص نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں جغرافیائی حدود كی كوئی قید و شرط نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زندگی كے خاص شعبے میں محدود نہیں۔

انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا عظیم انقلاب جس كی مثال تاریخ بشریت كے دامن میں نہ ھو۔

انقلاب۔ اور اتنا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next