فلسفۂ انتظار



اسی بناء پر جب ھمیں پیاس لگتی ھے تو ھم خود بخود پانی كی تلاش میں نكل پڑتے ھیں اسی جذبے كے تحت ھمیں اس بات كا یقین ھے كہ جہاں جہاں پیاس كا وجود ھے وھاں خارجی دنیا میں پیاس كا وجود ضرور ھوگا۔ اگر پانی كا وجود نہ ھوتا تو ھرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ھم اپنی كوتاھیوں كی بناء پر پانی تلاش نہ كرپائیں تو یہ اس بات كی ھرگز دلیل نہ ھوگی كہ پانی كا وجود نہیں ھے، پانی كا وجود ھے البتہ ھماری سعی و كوشش ناقص ھے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل كرنے كا جذبہ پایا جاتا ھے تو ضرور خارج میں اس شے كا وجود ھوگا جس كا علم انسان بعد میں حاصل كرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایك ایسے عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی بسر كر رھا ھے جو دنیا كے گوشے گوشے كو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیكیوں كا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ھے كہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ھے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن كی اس منزلِ كمال تك پہونچ سكتا ھے تبھی تو ایسے عالمی مصلح كا انتظار انسان كی جان و روح میں شامل ھے۔

عالمی مصلح كے انتظار كا عقیدہ صرف مسلمانوں كے ایك گروہ سے مخصوص نہیں ھے بلكہ سارے مسلمانوں كا یہی عقیدہ ھے۔ اور صرف مسلمانوں ھی تك یہ عقیدہ منحصر نہیں ھے بلكہ دنیا كے دیگر مذاھب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ھے۔

اس عقیدے كی عمومیت خود اس بات كی دلیل ھے كہ یہ عقیدہ شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ نہیں ھے اور نہ ھی اقتصادیات كی پیداوار ھے كیونكہ جو چیزیں چند خاص شرائط كے تحت وجود میں آتی ھیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ھاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت كے حامل ھوتے ھیں كہ ھر قوم و ملّت اور ھر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے كی عمومیت اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس عقیدے كا تعلق انسان كی فطرت سے ھے۔ انسان فطری طور پر ایك عالمی مصلح كے وجود كا احساس كرتا ھے جب اس كا ظھور ھوگا تو دنیا عدل و انصاف كا مرقع ھوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایك ایسی عالمی حكومت كا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار كرے، انسان كو عدل و انصاف كا دلدادہ بنائے، یہ كسی شكست خوردہ ذھنیت كی ایجاد نہیں ھے، بلكہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حكومت كا احساس كرتا ھے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی كی آواز ھے ایك پاكیزہ فطرت كی آرزو ھے۔

بعض لوگوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ دوسرے مذاھب سے اس كو اخذ كیا گیا ھے، یا یوں كہا جائے كہ دوسروں نے اس عقیدے كو اسلامی عقائد میں شامل كردیا ھے۔ ان لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی كوئی اصل و اساس نہیں ھے۔ دیكھنا یہ ھے كہ یہ فكر واقعاً ایك غیر اسلامی فكر ھے جو رفتہ رفتہ اسلامی فكر بن گئی ھے؟ یا در اصل یہ ایك خالص اسلامی فكر ھے۔

اس سوال كا جواب كس سے طلب كیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس كا جواب طلب كیا جائے جن كی معلومات اسلامیات كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھیں۔ یہیں سے مصیبت كا آغاز ھوتا ھے كہ ھم دوسروں سے اسلام كے بارے میں معلومات حاصل كریں۔ یہ بالكل ایسا ھی ھے جیسے كوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ كرے جو دریا كے كنارے ھے بلكہ ایك ایسے شخص سے پانی طلب كرے جو دریا سے كوسوں دُور ھے۔

یہ بات بھی درست نہیں ھے كہ مستشرقین كی باتوں كو بالكل كفر و الحاد تصور كیا جائے اور ان كی كوئی بات مانی ھی نہ جائے، بلكہ مقصد صرف یہ ھے كہ "اسلام شناسی" كے بارے میں ان كے افكار كو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ كیا جائے۔ اگر ھم تكنیكی مسائل میں علمائے غرب كا سہارا لیتے ھیں تو اس كا مطلب یہ تو نہیں كہ ھم اسلامی مسائل كے بارے میں بھی ان كے سامنے دستِ سوال دراز كریں۔

ھم علمائے غرب كے افكار كو اسلامیات كے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سكتے كہ ایك تو ان كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھے، جس كی بنا پر ایك صحیح نظریہ قائم كرنے سے قاصر ھیں۔ دوسری وجہ یہ ھے كہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول كو مادی اصولوں كی بنیاد پر پركھنا چاھتے ھیں، ھر چیز میں مادی فائدہ تلاش كرتے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ اگر تمام اسلامی مسائل كو مادیت كی عینك لگا كر دیكھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل كی حقیقت كیا سمجھ میں آئے گی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next