فلسفۂ انتظار



2۔ مقصد آمادگی ھے، فساد نہیں

جو چیز حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو كسی حد تك نزدیك كرسكتی ھے وہ ھے وہ ظلم وجور و فساد نہیں ھے بلكہ ھماری آمادگی ھے، ھمارا اشتیاق ھے۔ كیا ھمیں حضرت كا اسی طرح انتظار ھے جس طرح سے ایك پیاسے كو پانی كا۔

ھاں یہ اور بات ھے، جس قدر ظلم و جور، فساد اور بربادی میں اضافہ ھوتا جائے گا اتنا ھی لوگ موجودہ نظام اور ضابطۂ حیات سے عاجز ھوتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ لوگوں كو اس بات كا یقین ھوتا جائے گا كہ موجودہ ضابطۂ حیات میں سے كوئی ایك بھی ھماری مشكلات كا حل پیش نہیں كرسكتا بلكہ جتنے بھی نظام رائج ھیں وہ سب كے سب ھماری مشكلات میں اضافہ تو كرسكتے ھیں مگر كمی نہیں كرسكتے۔ یہی یقین اس بات كا سبب ھوگا كہ لوگ ایك ایسے نظام كے منتظر ھوں گے جو واقعاً ان كی مشكلات كا حل پیش كرسكتا ھے جس قدر یہ یقین مستحكم ھوتا جائے گا، اتنا ھی انسان كا اشتیاق بڑھتا جائے گا۔

دھیرے دھیرے یہ بات بھی روشن ھوتی جائے گی اور لوگوں كو یقین ھوتا جائے گا كہ دنیا كی جغرافیائی تقسیم مشكلات كا سر چشمہ ھے۔ یہی جغرافیائی تقسیم ھے جس كی بنا پر بے پناہ سرمایہ اسلحہ سازی میں خرچ ھورھا ھے، انسان كی گاڑھی كمائی كے پیسے سے خود اس كی تباھی كے اسباب فراھم كئے جارھے ھیں۔ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ھر قوی اور طاقت ور ملك ضعیف اور فقیر ملك كو اپنے قبضہ میں كرلیتا ھے۔ ان كے پاس جو خدا داد نعمتیں ھیں ان كو ہتھیانے كی فكر میں لگا رھتا ھے۔ یہ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ملكوں میں آپس میں ایك حسد اور تعصب پایا جاتا ھے۔ یہی وہ باتیں ھیں جو انسانی مشكلات كا سرچشمہ ھیں، جس قدر یہ حققیت انسانی ذھن میں اترتی جائے گی اتنا ھی انسان ایك ایسی حكومت كی فكر میں ھوگا، جس میں یہ قصّہ ھی نہ ھو، جہاں پر كوئی حد بندی نہ ھو۔ اگر حد بندی ھو تو صرف انسانیت اور آدمیت كی۔ جب ایك عالمی حكومت كا قیام ھوگا تو وہ بے پناہ سرمایہ جو اسلحہ كے اوپر خرچ ھورھا ھے، وہ انسان كی فلاح و بہبود كے لئے خرچ ھوگا، اب نہ حسد كا سوال ھوگا اور نہ رقابت كا، بلكہ سب مل كر شانے سے شانہ ملاكر ھاتھ میں ھاتھ دے كر، عدل و انصاف، صدق و صفا، برادری، اخلاص و ایثار، اخلاق و كردار، مروت و شرافت كی بنیاد پر قصر آدمیت و انسانیت كو تعمیر كریں گے۔

3۔ تاریكی كا عُروج ؟

دنیا تو مدت ھوئی ظلم و جور سے بھر چكی ھے۔ یہ جنگیں یہ قتل و غارت، لوٹ مار خوں ریزیاں اس بات كی نشانی نہیں ھیں كہ دنیا ظلم و جور سے بھری ھوئی ھے۔ یہ كینہ و حسد ایك دوسرے كو تباہ و برباد كرنے كے لئے ایك سے ایك اسلحہ بنانا، طاقت كے گھمنڈ میں غریبوں اور كمزوروں كو كچل كے ركھ دینا، دنیا سے اخلاقی قدروں كو مٹ جانا جہاں كردار كی بھیك مانگے سے نہ ملتی ھو، جہاں شرم و حیا نام كی كوئی چیز نہ ھو تو اب بھی ظلم و جور میں كوئی كمی باقی رہ جاتی ھے۔؟

ھاں جس چیز كی كمی ھے وہ یہ ھے كہ ھم ابھی تك موجودہ نظام ھائے حكومت كی حقیقتوں سے واقف نہیں ھوئے ھیں، ابھی ھم ان ضابطۂ حیات كے نتائج سے باقاعدہ آگاہ نہیں ھوئے۔ ابھی تك یہ بات بالكل روشن نہیں ھوئی ھے كہ واقعاً ھماری مشكلات كا سرچشمہ كیا ھے، جس كی بناء پر ھم اپنے وجود میں اس جذبے كا احساس نہیں كرتے جو ایك پیاسے كو پانی كا ھوتا ھے، ایك مریض كو شفا كی آرزو۔

جس قدر ھمارے جذبات میں اضافہ ھوتا جائے گا، جتنا ھم میں آمادگی پیدا ھوتی جائے گی، جس قدر حضرت (ع) كے ظھور كی ضرورت اور عالمی انقلاب كا احساس ھوتا جائے گا، اتنا ھی حضرت كا ظھور نزدیك ھوتا جائے گا۔

4۔ سچّا منتظر كون۔؟

انتظار كے اثرات و فوائد میں سے دو كا ذكر كیا جاچكا ھے۔ 10 انفرادی اصلاح یا اصلاح نفس (2) سماج كی اصلاح۔

انتظار كے اثرات صرف انھیں دو میں منحصر ھیں بلكہ اور بھی ھیں، ان میں سے ایك اور قارئین كی خدمت میں پیش كیا جاتا ھے۔

جس وقت فساد وباكی طرح عام ھوجائے گا، ھر طرف فساد ھی فساد نظر آئے، اكثریت كا دامن فساد سے آلودہ ھو، ایسے ماحول میں اپنے دامن كو فساد سے محفوظ ركھا ایك سچّے اور حقیقی منتظر كا كام ھے۔ یہ وہ موقع ھوتا ھے جس وقت نیك اور پاك سیرت افراد روحی كش مكش میں مبتلا ھوجاتے ھیں۔ كبھی بھی یہ خیال ذھنوں میں كروٹیں لینے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے۔ یہ مایوسی كردار كے لئے ایك مہلك زھر ثابت ھوسكتی ھے۔ انسان یہ خیال كرنے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے، اب حالات سدھرنے والے نہیں ھیں، اب كوئی تبدیلی واقع نہیں ھوئی، بلكہ حالات بد سے بدتر ھوجائیں گے، ایسی صورت میں اگر ھم اپنے دامن كردار كو بچائے بھی ركھیں تو اس كا كیا فائدہ جب كہ اكثریت كا دامن كردار گناھوں سے آلودہ ھے۔ اب تو زمانہ ایسا آگیا كہ بس "خواھی نشوید رسوا ھم رنگ جماعت باش"۔۔ اگر رسوائی اور بدنامی سے بچنا چاھتے ھو تو جماعت كے ھم رنگ ھوجاؤ۔

ھاں! اگر كوئی چیز ان لوگوں كو آلودہ ھونے سے محفوظ ركھ سكتی ھے اور ان كے دامن كردار كی حفاظت كرسكتی ھے تو وہ صرف یہی عقیدہ كہ ایك دن آئے گا جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوگا اور دنیا كی اصلاح ھوگی جیسا كہ رسول گرامی (ص) كا ارشاد ھے: "اگر آنے میں صرف ایك ھی دن باقی رہ جائے گا تو خداوند عالم اس دن كو اس قدر طولانی كردے گا كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوجائے"۔ (1) جب ایك دن اصلاح ھوگی اور ضرور ھوگی تو كیوں نہ ھم اپنے دامن كردار كو محفوظ ركھیں، دوسروں كی اصلاح كی فكر كیوں نہ كریں۔ اس سعی و كوشش كی بنا پر ھم اس لائق ھوسكیں گے كہ وقت انقلاب موافقین كی صف میں ھوں اور ھمارا بھی شمار حضرت كے اعوان و انصار میں ھو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next