فلسفۂ انتظار



ایسا بھی نہیں ھے كہ انتظار كرنے والے كی حیثیت صرف ایك تماشہ دیكھنے والے كی حیثیت ھو، اور اس كو انقلاب سے كوئی سروكار نہ ھو، یا تو وہ اس عالمی انقلاب كا موافق ھوگا یا پھر مخالف۔ كسی تیسری صورت كی گنجائش نہیں ھے۔

بیدار ضمیر اور روشن فكر شخص جب كبھی اس انقلاب كے بارے میں فكر كرے گا اور اس كے نتائج پر نظر ركھے گا تو كبھی وہ مخالفین كی صف میں نہ ھوگا، كیونكہ اس انقلاب كے اصول اس قدر فطرت اور ضمیر كے نزدیك ھیں كہ ھر وہ شخص جس كے پہلو میں انسان كا دل ھے وہ ان اصولوں كو ضرور قبول كرے گا۔ مخالفت صرف وھی كریں گے جو ظلم و فساد كے دلدادہ ھوں، یا مظالم ڈھاتے ڈھاتے ظلم كرنا ان كی فطرت ثانیہ بن گئی ھو۔

جب انسان اس "عالمی انقلاب" كے طرفداروں میں ھوگا اور ھر انصاف پسند طرفدار ھوگا، ان لوگوں كے لئے ناگزیر ھے كہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح كرلیں اور نیك اعمال بجالانے كے خوگر بنیں، عمل سے زیادہ نیت میں پاكیزگی ھو، تقویٰ دل كی گہرائیوں میں جاگزیں ھو علم و دانش سے سرشار ھو۔

اگر ھم خود فكری یا عملی طور پر ناپاك ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كے متمنی ھیں جس كی پہلی ھی لپیٹ ایسے لوگوں كو نگل جائے گی۔ اگر ھم خود ظالم اور ستم گر ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كا انتظار كررھے ھیں جس میں ظالم اور ستم گر كے لئے كوئی جگہ نہ ھوگی۔

اگر ھم خود مفسد ھیں اور فساد پھیلانے میں لگے رھتے ھیں تو كیوں ایسے انقلاب كی امید میں زندگی كے شب و روز گذار رھے ھیں جس میں مفسد اور فساد پھیلانے والے نیست و نابود ھوجائیں گے۔

خود فیصلہ كرلیجئے كیا اس عالمی انقلاب كا انتظار انسان كو باعمل اور باكردار بنا دینے كے لئے كافی نہیں ھے۔؟ یہ انتظار كی مدّت كیا اس بات كی مہلت نہیں ھے كہ انسان آمد انقلاب سے پہلے خود اپنی اصلاح كرلے اور خود كو انقلاب كے لئے آمادہ كرلے۔

وہ فوج جو ایك قوم اور ملّت بلكہ ایك ملك كو ظلم و ستم سے آزادی دلانا چاھتی ھے اس كے لیے ضروری ھے كہ وہ ھمیشہ مستعد رھے، اپنے اسلحوں كو پركھ لے، اگر كوئی اسلحہ خراب ھوگیا ھے یا زنگ آلود ھوگیا ھے تو اس كی فوراً اصلاح كرلے، حفاظتی اقدام میں كوئی كسر نہ اُٹھا ركھے، اپنی چوكیوں كو مضبوط كرلے، اور جو مضبوط ھیں انھیں مضبوط تر بنالے سپاھیوں كا شمار كرلے، ان كی قوت آزمالے، ان كے جذبات كا جائزہ لے لے، جن كی ھمتیں پست ھوں ان میں ایك تازہ روح پھونكی جائے۔ ھر ایك كو اس كی ھمت اور جذبہ كے مطابق كام سونپا جائے۔ اگر فوج ان خصوصیات كی حامل ھے تب تو اس بات كی امید كی جاسكتی ھے كہ وہ اپنے مقاصد میں كامیاب ھوگی، ورنہ اس كے تمام دعوے جھوٹے اور تمام منصوبے محض خواب و خیال ھوں گے۔

اسی طرح وہ لوگ جو اپنے كو حضرت امام زمانہ علیہ السلام كا منتظر كہتے ھیں اور یہ كہتے ھوئے فخر محسوس كرتے ھیں كہ ایك امام غائب كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں ان كے لئے ضروری ھے كہ وہ اپنے كو اس عالمی انقلاب كے لئے آمادہ كریں۔ اپنے نفوس كا خود امتحان لے لیں، اپنے جذبات كو حقائق كی كسوٹی پر پركھ لیں، كیونكہ الخ

ایك قوم جو ھمیشہ اپنی اصلاح میں منہمك ھو، نہایت شوق و ولولے كے ساتھ نیك اعمال بجا لارھی ھو، سچے جذبات اور خلوص نیت كے ساتھ كردار كے اعلیٰ مراتب طے كر رھی ھو وہ قوم اور سماج كس قدر عالی اور بلند ھوگا، وہ ماحول كس قدر روح افزا اور وہ فضا كس قدر انسانیت ساز ھوگی، وہ صبح كس قدر تابناك ھوگی جس میں ایك ایسی عظیم قوم جنم لے گی۔ وہ قوم كوئی اور نہیں ھوگی بلكہ ھم اور آپ ھی ھوں گے بشرطیكہ متوجہ ھوجائیں اور اصلاحات میں لگ جائیں۔

یہ ھیں اس انتظار كے معنی جس كے بارے میں روایتیں وارد ھوئی ھیں، اور یہ ھے وہ "سچّا منتظر" جس كو روایت میں "مجاھد" اور "شھید" كا درجہ دیا گیا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next