فلسفۂ انتظار



ضرورت ھے ایسے افراد كی جن كے ارادے كے سامنے مصائب كا طوفان خود چكر میں آجائے، جن كے عزم كے سامنے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں، جن كی امید كے سامنے مایوسی كی چٹانیں پاش پاش ھوجائیں۔ فكر اس قدر وسیع ھوكہ آسمان اور زمین كی وسعتیں كم ھوں، اخلاق اس قدر بلند ھوكہ دشمن بھی كلمہ پڑھیں۔ كردار اتنا مستحكم ھوكہ ملائك بھی سجدہ ریز ھوں۔

2) سماج كی اصلاح

سچّا منتظر وہ ھے جو صرف اپنی اصلاح پر اكتفا نہ كرے بلكہ اس كے لیے ضروری ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كی فكر كرے۔

كیونكہ جس انقلاب كا انتظار ھم كررھے ھیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیں ھوں گی بلكہ سماج كے سبھی افراد اس میں برابر كے شریك ھوں گے، لھذا سب مل كر كوشش كریں، ایك دوسرے كے حالات سے آگاہ رھیں، ایك دوسرے كے شریك رھیں اور شانے سے شانہ ملاتے ھوئے انقلاب كی راہ پر گامزن رھیں۔

جب كام سب مل كر انجام دے رھے ھوں تو اس میں كوئی ایك دوسرے سے غافل نہیں رہ سكتا۔ بلكہ ھر ایك كا فریضہ ھے كہ دوسروں كا بھی خیال ركھے۔ اطراف و جوانب كا بھی علم ركھتا ھو، جہاں پر كوئی معمولی سی كمزوری نظر آئے، فوراً اس كی اصلاح كرے۔ كوئی كمی ھوتو فوراً اس كو پورا كیا جائے۔

اسی بناء پر جہاں ھر انتظار كرنے والے كا یہ فریضہ ھے كہ خود كی اصلاح كرے، كردار كے جوھر سے آراستہ ھو وھاں اس كا یہ بھی فریضہ ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كرے، سماج میں اخلاقی قدروں كو اجاگر كرے۔

صحیح انتظار كرنے كا یہ دوسرا فلسفہ ھے، ان باتوں كو پیش نظر ركھ كر روایات كا مطالعہ كیا جائے تو معنی كس قدر صاف اور روشن ھوجاتے ھیں۔ منتظر كو كہیں مجاھد كا درجہ، كہیں راہ خدا میں شمشیر بكف كا درجہ، اور كہیں پر فائز بہ شھادت كا درجہ دیا گیا ھے۔ بدیہی بات ھے اپنی اصلاح یا دوسروں كی اصلاح، انفرادی زندگی كے ساتھ حیات اجتماعی كو بھی سنوارنا كس قدر دشوار گذار مرحلہ ھے۔ ان مراحل میں وھی ثابت قدم رہ سكتا ھے جو عزم و عمل كا شاھكار ھو، جس كے قدم ثبات و استقلال كی آپ اپنی مثال ھوں۔

ایك اعتراض

دنیا كے بارے میں ھماری معلومات محدود ھیں، اور نہ ھمیں موجودہ حكم فرما نظام كی حقیقت معلوم ھے اور نہ ھم اس كے نتائج سے باخبر ھیں، اس بناء پر ھم خیال كرتے ھیں كہ ظلم و فساد میں ابھی كچھ كمی ھے۔ اگر صحیح طور سے دیكھا جائے تو آج بھی دنیا فساد سے بھری ھوئی ھے آج بھی دنیا ظلم و ستم كی آما جگاہ بنی ھوئی ھے"۔

دنیا میں كچھ ایسے بھی موجودہ ھیں جو ھمیشہ اس فكر میں رھتے ھیں كہ كس طرح ایك اصلاحی بات سے بھی فساد كا پہلو نكالا جائے۔ ان كی كوشش یہ ھوتی ھے كہ ھر چیز میں اس كا منفی پہلو اُبھارا جائے، اصلاح كو بھی فساد كا جامہ پہنا دیا جائے، تاكہ ان كی دُكان ٹھپ نہ ھونے پائے۔ زیر بحث مسئلہ بھی ان لوگوں كی سازش سے محفوظ نہ رہ سكا۔

ان لوگوں كا كہنا ھے كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور میں شرط یہ ھے كہ آپ اس وقت ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی، دور دور تك كہیں اچّھائیوں كا نام تك نہ ھوگا، نیكی كی شمع كوسوں دور بھی نظر نہ آتی ھوگی۔

اگر ھم لوگ اصلاح كے راستے پر قدم بڑھائیں گے، ظلم و جور كو مٹانے كی كوشش میں لگے رھیں گے تو حضرت كے ظھور میں خواہ مخواہ تاخیر ھوگی، لھذا كیوں نہ ھم لوگ مل كر فساد كی آگ كو اور بھڑكادیں، ظلم و ستم كے شعلوں كی لپك كو اور تیز كردیں، استبداد كی بھٹی كو كیوں نہ اور گرم كردیں، جو كچھ تھوڑی بہت كسر رہ گئی ھے، اسے جلد از جلد پورا كریں تاكہ حضرت كا ظھور جلد ھوسكے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next