فلسفۂ انتظار



تعلیماتِ اسلامی میں یہ بات بھی ملتی ھے كہ سب سے عظیم گناہ اگر كوئی چیز ھے تو وہ "رحمت الٰہی سے مایوسی ھے"۔ اس كی وجہ بھی صاف واضح ھے۔ جب انسان رحمتِ الٰہی سے مایوسی ھوجائے گا تو كبھی بھی اصلاح كی فكر نہیں كرے گا۔ وہ یہی خیال كرے گا كہ جب كافی عمر گناہ كرتے گزری تو اب چند دنوں كے لئے گناہ سے كنارہ كشی اختیار كرنے سے كیا فائدہ۔ جب ھم گناھوں كے بوجھ سے دبے ھوئے ھیں تو كیا ایك اور كیا دس۔ اب تو پانی سر سے اونچا ھوچكا ھے، ساری دنیا میں بدنامی ھوچكی، اب كاھے كی پرواہ، اپنے اعمال كے ذریعہ دوزخ خرید چكا ھوں۔ جب آتش جہنم میں جلنا ھے تو باقاعدہ جلیں گے اب ڈر كس بات كا۔

اگر انسان كی ساری عمر گناہ كرتے گزری ھو، اور اسے اس بات كا یقین ھو كہ میرے گناہ یقیناً بہت زیادہ ھیں، لیكن رحمتِ الٰہی اس سے بھی زیادہ وسیع ھے۔ میرے لاكھ گناہ سھی مگر اس كی رحمت كے مقابلے میں كچھ بھی نہیں، اس كی ذات سے ھر وقت امید ھے، اگر میں سدھر جاؤں تو وہ آج بھی مجھے بخش سكتا ھے۔ اگر میں اپنے كئے پر نادم ھوجاؤں تو اس كی رحمت شامل حال ھوسكتی ھے۔ یہی وہ تصور اور عقیدہ ھے جو انسان كی زندگی میں ایك نمایاں فرق پیدا كرسكتا ھے، ایك گناھگار كو پاك و پاكیزہ بنا سكتا ھے۔

اسی لئے تو كہا جاتا ھے كہ امید انسانی زندگی كے لئے بہت ضروری چیز ھے۔ امید كردار سازی میں ایك مخصوص درجہ ركھتی ھے۔ اصلاح كی امید فساد كے سمندر میں غرق ھونے سے بچا لیتی ھے، اصلاح كی امید انسانی كردار كے لئے ایك مستحكم سپر ھے۔

جس قدر دنیا فاسد ھوتی جائے گی اسی اعتبار سے حضرت كے ظھور كی امید میں اضافہ ھوتا جائے گا، جس قدر یہ امید بڑھتی جائے گی اسی اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ھوتی جائے گی۔ ایك صالح اور با كردار اقلیت كبھی بھی فسادی اكثریت كے سمندر میں غرق نہیں ھوگی۔

یہ ھے انتظار كا وہ فائدہ جو كردار كو فاسد ھونے سے محفوظ ركھتا ھے، ایك سچّے اور با كردار منتظر كا دامنِ عفت گناھوں سے آلودہ نہیں ھوگا۔

مختصر یہ كہ

اگر انتظار كو صحیح معنوں میں پیش كیا جائے تو انتظار انسان كی زندگی كے لیے بہت ضروری ھے۔ اخلاقی قدروں كو اجاگر ركھنے كا ایك بہترین ذریعہ ھے۔ انتظار بے حس انسان كو ذمہ دار بنا دیتا ھے۔ بے ارادہ انسانوں كو پہاڑوں جیسا عزم و استقلال عطا كرتا ھے۔

ھاں اگر انتظار كے مفھوم كو بدل دیا جائے، اس كی غلط تفسیر كی جائے تو اس صورت میں انتظار ضرور ایك بے فائدہ چیز ھوگی۔

انتظار كبھی بھی انسان كو بے عمل نہیں بناتا۔ اور نہ بد اعمالی كی دعوت دیتا ھے، اس بات كی زندہ دلیل وہ روایت ھے جو اس آیتہ كریمہ كے ذیل میں وارد ھوئی ھے: وَعدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لِیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فی الارض "وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں اور عمل صالح بجالاتے ھیں ان سے خدا كا یہ وعدہ ھے كہ خدا ان كو روئے زمین پر حكومت عطا كرے گا۔" امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس آیت سے مراد القائم واصحابہ 11 اس سے مراد حضرت مھدی (ع) اور ان كے اصحاب ھیں۔

ایك دوسری روایت میں ھے نزلت فی المھدی 12 یہ آیتہ كریمہ حضرت مھدی كی شان میں نازل ھوئی ھے۔

غور طلب بات یہ ھے كہ اس آیتہ كریمہ میں جو حضرت كے اصحاب كی صفت بیان كی گئی ھے ان میں ایك ایمان ھے اور دوسرا عمل صالح



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next