فلسفۂ انتظار



(1) گزشتہ انبیاء اور رسولوں كے انقلاب كی طرح حضرت مھدی (عج) كا انقلاب بھی طبیعی علل و اسباب پر مبنی ھوگا۔ اس انقلاب كی كوئی اعجازی شكل و صورت نہ ھوگی۔ معجزات تو خاص خاص صورتوں سے مخصوص ھیں۔ جس طرح پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی 23 سالہ تبلیغی زندگی میں خاص مواقع كے علاوہ ھر جگہ عام علل و اسباب سے كام لیا ھے۔

اسی لئے ھمیں ملتا ھے كہ انبیاء علیہم السلام اپنے مشن كی تبلیغ و توسیع میں روز مرّہ كے وسائل سے استفادہ كرتے تھے مثلاً افراد كی تربیت، مسائل میں مشورہ، منصوبہ كی تشكیل، جنگ كے لیے نقشہ كشی خلاصہ یہ كہ ھر مادی اور معنوی وسائل سے استفادہ كرتے اور اسی سے اپنے مشن كو آگے بڑھاتے تھے۔ وہ میدان جنگ میں ھاتھ پر ھاتھ دھرے كسی معجزے كا انتظار نہیں كرتے تھے، بلكہ خدا پر بھروسہ كر كے اپنی طاقت سے جنگ لڑتے تھے اور كامیاب ھوتے تھے۔

اسی طرح حضرت مھدی (عج) اپنے عالمی انقلاب میں روز مرہ كے وسائل سے استفادہ كریں گے۔ الٰہی منصوبوں كو عملی بنائیں گے ان كا كام الٰہی پیغام كی تبلیغ ھی نہیں بلكہ وہ الٰہی احكام كو ان كی صحیح شكل میں نافذ كریں گے۔ وہ دنیا سے ھر طرح كا ظلم و جور كا خاتمہ كردیں گے اتنا بڑا كام صرف یونہی نہیں ھوجائے گا بلكہ اس كے لئے بہت سی چیزیں ضروری ھیں۔

(2) گذشتہ بیان سے یہ بنیادی بات واضح ھوگئی كہ انقلاب سے پہلے بعض چیزوں كا وجود ضروری ھے۔ عوام میں كئی اعتبار سے آمادگی دركار ھے۔

ایك: قبولیت

دنیا كی نا انصافیوں كی تلخیوں كو دنیا والے باقاعدہ احساس كریں۔ انسان كے خود ساختہ قوانین كے نقائص اور اس كی كمزوریوں كو بھی سمجھیں۔

لوگوں كو اس حقیقت كا باقاعدہ احساس ھوجائے كہ مادی قوانین كے سایہ میں حیاتِ انسانی كو سعادت نصیب نہیں ھوسكتی ھے۔ انسان كے خود ساختہ قوانین كے لئے كوئی "نفاذی ضمانت" نہیں ھے بلكہ انسان كے خود ساختہ قوانین مشكلات میں اضافہ كرتے ھیں كمی نہیں۔ یہ احساس بھی ھونا چاھئے كہ موجودہ افراتفری كا سبب خود ساختہ نظام ھائے حیات ھیں۔

لوگوں كو اس بات كا بھی احساس ھونا چاھئے كہ یہ دنیا اسی وقت سدھر سكتی ھے جب میں ایسا نظام نافذ ھوگا جس كی بنیاد معنویت، انسانی اور اخلاقی اقدار پر ھو، جہاں معنویت اور مادیت دونوں كو جائز حقوق دیے گئے ھوں۔ جس میں انسانی زندگی كے تمام پہلوؤں كو بہ حد اعتدال سیراب كیا گیا ھو۔

اسی كے ساتھ ساتھ یہ بھی باور ھوجائے كہ صنعت اور ٹكنالوجی كے میدانوں میں چشم گیر اور حیرت انگیز ترقیاں انسان كو سعادت عطا نہیں كرسكتی ھیں۔ البتہ شقادت ضرور تقسیم كرسكتی ھیں۔ ھاں اس صورت میں ضرور مفید ثابت ھوسكتی ھیں جب یہ ترقیاں معنوی، انسانی اور اخلاقی اصولوں كے زیر سایہ حاصل كی جائیں۔

مختصر یہ كہ جب خوب تشنہ نہیں ھوں گے اس وقت تك چشمہ كی تلاش میں تگ و دو نہیں كریں گے۔

یہ تشنگی كچھ تو رفتہ رفتہ وقت گذرنے سے حاصل ھوگی اور كچھ كے لیے تعلیم و تربیت دركار ھوگی، یہ دنیا كے مفكرین كا كام ھے كہ ھر ایك میں یہ احساس بیدار كردیں كہ انسان كے خود ساختہ قوانین دنیا كی اصلاح نہیں كرسكتے ھیں بلكہ اس كے لئے ایك عالمی انقلاب دركار ھے۔ بہر حال اس میں وقت لگے گا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 next