حكومت آل سعود



عامر بن اسماعیل نے ان كو عبد اللہ بن علی كے سپرد كیا او راس نے سفاح كو دیدیا۔

ان كے علاوہ كچھ دوسری چیزیں بھی تھیں جن كو عباسی خلفاء محفوظ ركھتے تھے منجملہ پیغمبر اكرمكی ریش مبارك كے بال، عثمان كا قرآن ،جن كے بارے میں مصر كے خلفائے عباسی یہ ادعا كرتے تھے كہ یہ چیزیں مغلوں كے حملوں سے محفوظ ر ھیں، اور انھیں چیزوںاور دیگر قیمتی اشیاء كو سلطان سلیم مصر سے اسلامبول لے گیا یا ایك قول كے مطابق المتوكل علی اللہ نے ”بُردہ“ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ریش مبارك كے چند بال اور عمر كی تلوار سلطان سلیم كو دئے، اس سامان میں ایك شمشیر بھی تھی جس كو خلفاء حضرت رسول اللہ كی تلوار بتاتے تھے، چنانچہ اسی قول كے مطابق قاضی رشید بن الزبیر كھتے ھیں كہ خلیفة الراضی كے پاس مذكورہ سامان میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شمشیر بھی تھی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بعض منسوب چیزیں غیر خلفاء كے پاس بھی پائی گئی ھیں، منجملہ یہ كہ (ابن طولون كی تحریر كے مطابق) 16 ربیع الآخر921ھ میں چند لوگ بیت المقدس سے دمشق میں داخل هوئے جن كے پاس رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب كچھ چیزیں تھی منجملہ ایك كاسہٴ آب، اور عصاء كا كچھ حصہ اور یہ دونوں چیزیں ٹوٹی هوئی تھیں، اور ایك شخص ان كو اپنے سر پر ركھے هوئے تھا، اور ان كے سامنے علم اٹھائے هوئے تھے اور طبل بجارھے تھے، ملك الامراء، قضات، صوفی لوگ اور دوسرے لوگ ان كے پیچھے پیچھے چل رھے تھے، اور بھت سے لوگ ان چیزوں كو دیكھنے كے لئے جمع هوجاتے تھے۔

میں (ابن طولون) نے ان چیزوں كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے جواب دیا كہ یہ پانی كا ظرف اور عصا كا ایك حصہ ابن ابی اللطف كے باپ كے پاس تھے اور یہ چیزیں قلقشندی خاندان سے ان كے پاس پهونچی تھیں، چنانچہ ملك الامراء نے ان چیزوں كوبطور عاریہ مانگا تاكہ ان كے ذریعہ متبرك هوسكے، لیكن بعد میں معلوم هوا كہ یہ سب چیزیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی نھیں تھی بلكہ لیث بن سعد كی تھیں۔

اسی طرح ابن ایاس كی تحریر كے مطابق جس وقت سلطان مصر ”حلب“ سے سلطان سلیم كا مقابلہ كرنے كے لئے نكلاتو خلیفہ اس كے داھنی طرف كھڑا تھا، اور اس كے چاروں طرف چالیس اھم شخصیات كھڑی تھیں جن كے پاس حریر كے كپڑے سے بنے غلاف میں ایك ایك قرآن مجید تھا، جس كو وہ اپنے سر پر ركھے هوئے تھے جن میں ایك قرآن مجید عثمان كے ھاتھ كا لكھا هوا بھی تھا۔

اسی طرح ا بن طولون صاحب كھتے ھیں كہ سلطان سلیم جس وقت دمشق پهونچے اور ”جامع اموی“ میں اور ” مقصورہ“ (مسجد كی وہ جگہ جھاں پر سلطان یا امام نماز پڑھا كرتے تھے) میں جاكر نماز پڑھی توانھوں نے عثمان كے (ھاتھوں كے لكھے هوئے) قرآن كی بھی تلاوت كی۔

خلاصہ یہ ھے كہ سلطان سلیم نے مذكورہ چیزوں كو جمع كیا چاھے وہ خلفاء كے پاس هوں یا دوسرے افراد كے پاس، اور اس كے بعد یہ چیزیں عثمانی سلاطین كے پاس موجود رھیں، اور جب عثمانی حكومت كا خاتمہ هوا اور ”تركی جمهوریت“ كا آغاز هواتو یہ تمام چیزیں شھر اسلامبول میں (بسفور كے كنارے جامع یاصوفیہ كے نزدیك) ” توپ قاپی قلعہ “ میں ركھ دی گئیں، جو شخص بھی ان كو دیكھناچاھے وہ دیكھ سكتا ھے۔

شریف حسین كی حكومت

6 محرم الحرام 1353ھ مطابق 3 دسمبر1918ء بروز پنجشنبہ مكہ میں شریف حسین كی عرب كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی جانے لگی، اور اس كے تین دن بعدانھوں نے اپنے تینوں بیٹوں كو درج ذیلعہدوںپر معین كیا:

امیر علی، رئیس الوزراء ۔

امیر فیصل، وزیر داخلہ ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next