حكومت آل سعود



ہ فتویٰ اس وقت كا ھے كہ جب ایران پر محمود افغان فرمانروائی كررھا تھا اور حالات بھت خراب تھے، عثمانی بادشاہ نے اپنے مقاصد میںكامیاب هوجانے كے لئے اس وقت كو غنیمت سمجھ كر ایران پر حملہ كے لئے ایك عظیم لشكر روانہ كیا اور اپنے لشكر كے سردار كو یہ حكم دیا كہ محمود افغان سے كچھ نہ كہنا۔

قارئین كرام توجہ كریں كہ یہ فتویٰ صرف سپاھیوں كو گمراہ كرنے كے لئے صادر كیا گیا تھا۔

ہ بات قابل توجہ ھے كہ یہ فتویٰ كتنا غیر اصولی، بے بنیاد اور دینی اور انسانی لحاظ سے كس قدر دور تھا عثمانی سپاھی اپنے علماء اور مفتیوں پر اعتقاد ركھتے تھے ،لیكن جب مقام عمل میں آئے تو پھر ان میں خود اس فتوے پر عمل كرنے كی طاقت نھیں تھی یعنی جس وقت ایرانی لوگوں اور ان كے اھل خاندان كو دیكھا تو ان میں كسی بھی ایسی چیز كو نہ پایا جس كی بنا پر اس فتوے میں اتنا شدید ردّ عمل دكھایا گیا تھا، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ انھوں نے ان ایرانیوں كو مرتد اور دین سے خارج شمار نھیں كیا۔

مندرجہ ذیل عثمانی مولف كے واقعہ سے ھماری بات كی تائید هوتی ھے :

”عثمانی سپاھیوں نے راستہ میں ایك اصفھانی كاروان پر حملہ كردیااور شیخ الاسلام كے فتوے كے مطابق ان كے مردوں كو قتل كردیا اور ان كی علوی سادات سے اور شریف خاندانوں سے تعلق ركھنے والی عورتوں كو اسیر كرلیا، لیكن مذكورہ فتوے كے برخلاف ان عورتوں كو بھت پاك او ردیندار پایا یھاں تك كہ وہ اپنی حفاظت كے سلسلہ میں نامحرم پر نظر كرنے سے بھی سخت پرھیز كرتی تھیں، ان میں نجابت او رشرافت كی تمام نشانیاں واضح او رآشكار تھیں، ان تمام چیزوں كو دیكھنے كے بعد وہ شش وپنچ میں پڑگئے كہ ایسی عورتوں كو كیسے اسیر كریں اور ان كو غلامی میں كیسے لے لیں، آخر كار ان كو بڑے احترام كے ساتھ كرمانشاہ میں پهونچادیا، اور وھاں كی ایك عظیم ہستی میرزا عبد الرحیم كے حوالے كردیا۔

اس طرح كے فتووں كا اثر عثمانی حدود سے باھر تك پهونچا اور ماوراء النھر (تاجكستان اور ازبكستان) تك پهونچ گیا، یھاں تك كہ قاچاریہ بادشاهوں كے زمانہ تك اس كا اثر باقی رھااور ماوراء النھر كے لوگوں نے بادشاہ عثمانی سے جس كو خلیفة الخلفاء كھا جاتا تھا یہ سوال كیا كہ كیا شیعہ لوگوں كو اسیر كركے ان كی خرید وفروخت كرنا جائز ھے ؟

اس بات میں كوئی شك نھیں كہ اگر عثمانی اور ازبك سپاہ اور عوام الناس ایران كے لوگوں كو قریب سے دیكھتے تو اس كے برخلاف پاتے جو غلط پروپیگنڈے كی وجہ سے ان كے ذہنوں میں نقش تھا۔

ایرانیوں كو حج سے روكنا

عثمانی بادشاهوں نے گذشتہ فتوے كے علاوہ بھی ایران كی دشمنی میںدوسرے كارنامے انجام دئے ھیں منجملہ یہ كہ1042ھ میں عثمانی بادشاہ نے ایرانیوں كو حج سے روكنے كا حكم صادر كردیا۔

اس حكم كو جاری كرنے كے لئے مكہ كے بازاروں میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ اس سال آئے هوئے ایرانی حجاج واپسی كے وقت اپنے برادران كو یہ اطلاع دیدیں كہ وہ آئندہ سال حج كے لئے سفر نہ كریں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next